Tuesday, January 5, 2016

شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان رح

کہلوانے لگے ھیں شیخ القرآن تو بہت ،،،
ممکن نئ کہ بن جاۓ غلام اللہ خان کوئ ،،،
آج 27 مئ یوم وفات
مفسرقرآن ، توحیدوست کی للکار ، شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب
رحمتہ اللہ علیہ و نوراللہ مرقدہ

*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*


مولاناغلام اللہ خان رح کی وفات پرامام حرم فضیلتہ الشیخ محمدعبداللہ السبیل (مکہ مکرمہ) نےفرمایا:
"شیخ مولاناغلام اللہ رح ہمارے عہدکےبہت بڑےداعی توحید، عالم اور مفسرقرآن تھے انکے ساتھ گزشتہ کئی سالوں سے برادرانہ تعلق قائم تھا اور علمی مذاکرات ہوتےرہتے تھے عقیده توحید میں انکے اخلاص وللہیت نےمجھے انکا گرویده بنادیاتھا"

زکوة کے فضائل و مسائل

"زکوة کے فضائل و مسائل"
میسج#1
"حضرت حسن رض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد نقل کرتے ہیں که اپنے مالوں کو زکوة کے ذریعہ مخفوظ بناؤ اور اپنے بیماروں کا صدقہ سےعلاج کرو اور بلا اورمصیبت کی موجوں کا دعا اور اللہ کے حضور میں عاجزی اور گریہ زاری سے استقبال کرو"
(رواه ابوداؤد)


"زکوة کے فضائل و مسائل"
میسج#2
زکوة کا نصاب
چاندی: 52.5 تولہ / 612.36گرام

"قابل زکوة مال"
سونا، چاندی، نقد رقم، فروخت کرنیکی نیت سے خریدا ہوا مال، چرنے والے جانور وغیره.

"زکوة کس پر فرض ہے؟"
مسلمان، عاقل، بالغ، جو صاحب نصاب ہو.

"زکوة کب لازم ہوگی؟"
جس قمری تاریخ کو پہلی دفعہ صاحب نصاب ہوا، اس تاریخ سے ایک کامل قمری سال گزرنے کے بعد بھی صاحب نصاب ہو تو زکوة کی ادائیگی لازم ہوجاتی ہے.

بدعات محرم

*بدعات محرم*
میسج#1
جیسےهی محرم کامهینه شروع هوتاهےتوپوری قوم سوگ کی کیفیت میں ڈوبی محسوس هوتی هےساری خوشیاں ماندپڑھ جاتی هیں شادی بیاه پربین لگ جاتاهے.
هرطرف لوگ کالالباس پهن کرگویاسوگ کااظهارکرتےهیں
اورپھردین کےنام پرخرافات کاایساطوفان بپا هوجاتاهےکه "الامان الحفیظ"
اوربڑےافسوس سےکهنا پڑتاهےکه اس سارےعمل میں هماری سنی قوم بھی رافضیوں سےشانه بشانه بلکه دوقدم آگےهی چل رهی هوتی هے
*مرکزی اشاعت گجرات*


*بدعات محرم*
میسج#2
"محرم سوگ کامهینه نهیں"
ماه محرم انتهائی محترم اورعظمتوں والامهینه هےاوراس میں الله تعالی نےمسلمانوں کوعموما اوربهت سےانبیاء کونعمتوں سےنوازاهے.
لهذا واقعه کربلاکی وجه سےان تمام نعمتوں کوفراموش کردینابھی کفران نعمت هے.
پھراسلام میں کسی بھی واقعه پرتین دن سےزیاده سوگ کرناحرام هے,  سواۓبیوی کےکه وه خاوندکی وفات پرچارماه دس دن سوگ کرے.
*MNTSPAK1*
*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*

*بدعات محرم*
میسج#3
"محرم سوگ کامهینه نهیں"
اسلام میں کسی بھی واقعه پرتین دن سے زیاده سوگ کرناحرام هے.
لهذا واقعه کربلا کی وجه سے جسکوچوده سو سال گزرگئے هیں محرم شروع هوتے هی اپنےآپ کو سوگ میں مبتلاکرناایک حرام کام میں مبتلا کرنا هے جو که مسلمانوں کے لئے جائز نهیں هے.
*MNTSPAK1*
*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*


*بدعات محرم*
میسج#4
"محرم میں نکاح کرناحرام نهیں"
محرم شروع هوتےهی شادی کی تقریبات موقوف کردی جاتی هیں اوربعض لوگ توویسےبھی محرم میں نکاح کرنےکوحرام سمجھتےهیں اورمحرم میں کئےهوۓنکاح کو منحوس خیال کیاجاتاهے
حالانکه یه بات بھی بلکل غلط هےاسلام میں کوئی مهینه یادن نهیں هےکه جس میں نکاح کرناحرام یامنخوس هوبلکه حرمت وعظمت والےمهینےمیں تونکاح کرنااور زیاده مبارک هوگاپھراس مهینےمیں حضورص سےنکاح کرناثابت هے

*بدعات محرم*
میسج#5
محرم میں نکاح کرناحرام نهیں"
ایک رویت کےمطابق سیده فاطمه الزهره رض کانکاح بھی محرم میں هواتھا
لهذایه کهناغلط هوگاکه اس مهینه میں نکاح کرنامنع هے
اورپهرکسی چیزکی حلت اورحرمت تووه هےجو نبی ص سےثابت هوکیونکه دین اسی کانام هے اور محرم میں نکاح کی ممانعت نبی ص سےثابت نهیں

"لهذایه بهی رافضی پروپیگنڈه کااثرهے سنی مسلمانوں کواس ذهنیت سے اجتناب کرناچاهئے"
*MNTSPAK1*
*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*


*بدعات محرم*
میسج#6
جیسے هی محرم شروع هوتاهےتوهرطرف سےواقعه کربلاکاچرچاشروع هوجاتاهے.
ٹی وی, ریڈیو, اوراخبارات اورجرائداور خطباء ومقررین حضرات سبھی واقعه کربلاکے پیچھےهاتھ دهوکرپڑےهوۓ نظرآتےهیں اوراس سےیه تاثرقائم کرنےکی کوشش کی جاتی هےکه اسلام میں واقعه کربلا سےبڑھ کرکوئی واقعه رونما هی نهیں هوا.
*MNTSPAK1*
*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*


ماہ محرم کی شادی ،اورعلامہ احمدسعیدخان رحمہ اللہ
سوال:کیاماہ محرم میں شادی کرناجائزھے،اورکس طرح جائزھے

جواب:جویہ کہتاھےکہ محرم میں شادی ناجائزیاحرام ھے،وہ دائرہ اسلام سےخارج ھے،پوری تاریخ اسلام میں ایساکوئ واقعہ نھیں ملتا،کہ نبی پاکﷺکی سنت پرعمل کرنامنع ھو،اورجوسنت سےجی کتراۓاس کامسلمانوں سےکوئ تعلق نھیں،لوکان فی محرم اوکان فی غیرہ،اسی وجہ سےاگرتم ڈرتےھوتومیں اس رسم کوتوڑتاھوں میری شادی کردوجوبادل گرناھےگرجاۓ،

مسائل قربانی

(قربانی کےمسائل)
میسج#1
عبادت مالی دوقسم کی هوتی هے پهلی وه هےکه دوسرےکومال کا مالک بنایاجائے, مشلا صدقه دیاجائے,
دوسری قسم: جس میں مال کوتلف کیاجائے مشلا غلام آزادکرنا.
قربانی میں هی دونوں مفهوم جمع هیں
(قربانی کی شرعی تعریف)
"یه یعنی قربانی کاجانور شریعت میں اس مخصوص جانورکوکهتےهیں جواسکی شرائط اورسبب پائےجانےکےساتھ مخصوص عمرکا مخصوص دن میں ثواب کی نیت سے ذبح کیاجاتاهے"
(فتاوی هندیه ج:٥ ص:٢٩١)

(قربانی کےمسائل)
میسج#2
حضرت آدم علیه السلام کےزمانه سےاب تک مختلف صورتوں میں قربانی رائج رهی هے
زمانه جاهلیت میں بھی لوگ اسکوعبادت سمجھتےتھے
مگربتوں کےنام پرقربانی کرتےتھے
مسلمان حضرت ابراهیم علیه السلام کی سنت پرعمل کی غرض سےقربانی کرتےهیں
حضرت ابن عمررض فرماتے هیں.
"رسول الله صلی الله علیه وسلم نےهجرت کےبعددس سال مدینه طیبه میں قیام فرمایا هرسال برابر قربانی کرتےرهے"

*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*

(قربانی کےمسائل)
میسج#3
قربانی کس پرواجب هے؟
قربانی هراس مرد اورعورت پرواجب هے جس میں درج ذیل باتیں پائی جائیں.
1:اسلام
پهلی شرط هےمسلمان هونا. لهذاکافرپرقربانی واجب نهیں.
2:مقیم هونا
یعنی آدمی مقیم هومسافرنه هو. اس لحاظ سےمسافرپرقربانی واجب نهیں.
3:آزادهونا
پس غلام پرقربانی واجب نهیں. اگرچه وه تجارت کےلیےاجازت یافته هو.
4:عاقل اوربالغ هونا
مجنون اورنابالغ بچےپرقربانی واجب نہیں.

*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*

(قربانی کے مسائل)
میسج#4
جن بستیوں شہروں میں جمعه وعیدین کی نمازجائزهے وہاں عیدکی نمازسے پہلےقربانی جائزنهیں.
اگرکسی شخص نےنمازعیدسے پهلےقربانی کردی تواس پردوباره قربانی لازم هے.
البته چھوٹے گاوں جهاں جمعه وعیدین کی نمازنهیں هوتی وهاں لوگ 10ذوالحجه کی صبح صادق کےبعدقربانی کرسکتےهیں.
ایسےهی اگرکسی جگه کسی عذرکی وجه سےنمازعیدنه هوسکے تونمازعیدکاوقت گزرجانے کےبعدقربانی درست هوگی.

*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*

(مسائل قربانی)
میسج#5
قربانی کےایام:
قربانی کی عبادت صرف تین دن کےساتھ مخصوص هےاوروه ذالحجه کی دسویں گیارهویں بارهویں تاریخیں هیں.
ان تاریخوں میں جب چاهےکرسکتاهے
خواه رات هو یادن,
البته دن کی قربانی کرنابهترهے.
پهلےدن کرنا افضل هے
اور بارهویں تاریخ کومغرب کےبعدقربانی کرناجائز نهیں هے.

(مرکزی اشاعت گجرات)
*سروس لگانےکاطریقہ*
FOLLOW MNTSPAK1
لکھ کر 9900 اور 40404 پربھیج دیں.
شکریہ

(مسائل قربانی)
میسج#6
آداب قربانی:
1: قربانی کےجانوروں کوچندروزپهلےسےپالنا افضل هے
2: قربانی کےجانورکادودھ نکالنا, اسکےبال یااون کاٹنامکروه هے
اگرکسی نےایساکرلیاتودودھ بال یااون کی قیمت کاصدقه کرناواجب هے
3: قربانی سےپهلےچھری کوخوب تیزکے اور ایک جانورکو دوسرےکےسامنےذبخ نه کرے اورذبخ کےبعدکھال اتارنےاور گوشت کےٹکڑےکرنےمیں جلدی نه کرے جب تک که جانورپوری طرح ٹھنڈا نه هوجائے.
*مرکزی اشاعت گجرات سروس*

(مسائل قربانی)
میسج#7
قربانی کرنے کامسنون طریقه:
1: اپنی قربانی کوخوداپنےهاتھ سے ذبخ کرناافضل هے اگرخود ذبخ کرنانهیں جانتا دوسروں سے ذبخ کرواسکتاهے مگرذبخ کےوقت وهاں حاضررهناافضل هے.
2: قربانی کی نیت صرف دل سےکرناکافی هے زبان سےکهناضروری نهیں
البته ذبخ کےوقت
"بسم الله الله اکبر"
زبان سےکهناضروری هے
نوٹ:
اپنے تمام دوست احباب کویه سروس لگاکر دیں.
طریقه:
FOLLOW MNTSPAK1
لکھکر 9900
اور
40404
پرسینڈکردیں
شکریه

(مسائل قربانی)
میسج#8
جب جانورکوذبخ کرنےکےلیے قبله رخ لٹائےتو یه آیت پڑھے.
"انی وجھت وجھی للذی فطرالسموات والارض حنیفا وماانا من المشرکین, ان صلاتی ونسکی ومحیایومماتی لله رب العالمین"
اور ذبح کرنےکےبعدیه دعاپڑھے.
"اللھم تقبله منی کما تقبلت من حبیبک محمدوخلیلک ابراهیم علیھماالسلام"
نوٹ:
اپنے تمام دوست احباب کویه سروس لگاکر دیں.
طریقه:
FOLLOW MNTSPAK1
لکھکر 9900
اور
40404
پرسینڈکردیں
شکریه

(مسائل قربانی)
میسج#9
قربانی کےجانوراورانکی شرائط:
بکرادنبه بھیڑایک هی شخص کی طرف سےقربانی کیاجاسکتاهےگائےبیل بهینس اونٹ سات آدمیوں کی طرف سےایک کافی هے بشرطیکه سب کی نیت ثواب کی هو ان میں سےکسی کی نیت محض گوشت کھانےکی نه هو.
بکرابکری ایک سال کاهوناضروری هے بھیڑاوردنبه اگراتنافربه اورموٹاتازه هوکه دیکھنےمیں سال بھرکامعلوم هوتاهو وه بھی جائزهے
گائےبیل اوربھینس دوسال کی اوراونٹ پانچ سال کاهوناضروری هے

(مسائل قربانی)
میسج#10
قربانی کےجانورکی شرائط:
3: اگرجانورفروخت کرنےوالا پوری عمربتاتاهے اورجانور کی ظاهری حالت سے اسکی بات ٹھیک معلوم هوتی هے
تواس پراعتمادکرناجائزهے
4: جس جانورکےسینگ پیدائشی طورپرنه هوں یادرمیان سےٹوٹ گیاهوتواسکی قربانی جائزهے البته سینگ جڑسےاکھڑگیاهے. جسکااثردماغ پرهونالازم هےتواسکی قربانی درست نهیں
5: خصی جانور کی قربانی جائزبلکه افضل هے.

*مرکزی اشاعت گجرات سروس*
MNTSPAK1

(مسائل قربانی)
میسج#11
جن جانوروں کی قربانی درست نهیں:
1: اندھےکانےلنگڑے جانورکی قربانی درست نهیں.
2: تمام شرکاء کامواحدهوناضروری هےاگر ایک بھی مشرک هواتوسب کی قربانی نهیں هوگی.
3: ایسامریض لاغر جانورجوقربانی کی جگه تک اپنےپیروں پرچل کرنه جاسکے اسکی قربانی بھی جائز نهیں.
4: جس جانورکاتهائی سےزیاده کان یادم وغیره کٹی هوئی هو اسکی قربانی بھی جائزنهیں.
*مرکزی اشاعت گجرات سروس*
FOLLOW MNTSPAK1
snd to 9900 & 40404

(مسائل قربانی)
میسج#12
جن جانوروں کی قربانی جائز نهیں:
5: جس جانورکےدانت بالکل نه هوں یااکثرنه هوں اسکی قربانی بھی جائزنهیں.
6: جس جانورکےکان پیدائشی طورپربلکل نه هوں اسکی قربانی بھی درست نهیں.
7: ناک کٹےاورچار تھن والےجانورکےتھن اگردو یادوسےزیاده کٹے هوں, اوردو تھنوں والےجانورکاتهن ایک تهائی سےزیاده کٹا هواهو تواسکی قربانی جائز نهیں.
*مرکزی اشاعت گجرات سروس*
MNTSPAK1

(مسائل قربانی)
میسج#13
جن جانوروں کی قربانی جائزنهیں:
8: اگرجانورصحیح سالم خریداتھاپھراس میں کوئی عیب ایساپیداهوگیاکه جسکی وجه سےجانورکی قربانی جائزنهیں,
تواگرخریدنےوالا غنی صاحب نصاب نهیں تواسکے لیےاس عیب دارجانور کی قربانی جائزهے,
اوراگریه شخص غنی صاحب نصاب هےتواس پرلازم هےکه اس جانورکےبدلے دوسرےجانور کی قربانی کرے.

*مرکزی اشاعت گجرات سروس*
FOLLOW MNTSPAK1
SND TO 9900 &
40404

(مسائل قربانی)
میسج#14
متفرق مسائل:
1: عیدکی نمازسےپهلے قربانی کرناجائزنهیں لیکن جس شهرمیں کئی جگه نمازعیدهوتی هواوراسی شهرمیں کسی جگه بھی نمازعیدهوگئی هوتوپورےشھر میں قربانی جائزهے.
2: قربانی کےجانورکےاگرذبح کرنےسےپهلے بچه پیداهوگیایاذبح کےبعداسکےپیٹ سےزنده بچه نکل آیاتواسکوبھی ذبخ کردیناچاهیےاور اگرقربانی کےدنوں میں اس بچےکوذبح نه کیاتواسکا صدقه کرناواجب هے,
اوراس بچے کاگوشت کھانا بھی جائزهے.

(مسائل قربانی)
میسج#15
متفرق مسائل:
3: جس شخص پرقربانی واجب تھی اگراس نےقربانی کاجانورخریدلیا پھروه گم هوگیایاچوری هوگیاتواس پرواجب هےکه اسکی جگه دوسری قربانی کرےاگرچه دوسری قربانی کےبعدپهلا گمشده جانورمل جائے
توبهترهےاسکی قربانی بھی کردےلیکن اسکی قربانی کرناواجب نهیں هے

(مسائل قربانی)
میسج#16
بڑےجانورکی قربانی میں ساتوں حصےداروں کاصحیح العقیده مسلمان هوناضروری هے
الله کی توحید.
رسول الله (صلی الله علیه وسلم) کی رسالت وختم نبوت اورعظمت صحابه واهل بیت سےاختلاف رکھنےوالے کسی ایک حصه دار کی شمولیت سے باقی چھے حصه داروں کی قربانی ضائع هونے کا احتمال هے.

(مسائل قربانی)
میسج#17
قربانی کی کھال:
1: قربانی کی کھال کواستعمال میں لانا,  مشلا مصلی بنالینا یاچمڑےکی کوئی چیزڈول وغیره بنوالینا,  یه جائزهے لیکن اسکو فروخت کیاتواسکی قیمت اپنے خرچ میں لاناجائزنهیں. بلکه اسکاصدقه کرناواجب هے اورقربانی کی کھال کوفروخت کرنابغیرنیت صدقه کےجائز نهیں.
(فتاوی عالمگیری)
*مرکزی اشاعت گجرات سروس*

(مسائل قربانی)
میسج#18
2: قربانی کی کھال کسی خدمت کےمعاوضےمیں دیناجائزنهیں اس لیےمسجدکے موذن یاامام وغیره کےحق الخدمت کےطورپرانکو کھال دینادرست نهیں. البته اگرامام یاموذن یاخادم ناداراورغریب هوں توایسی صورت میں انکوقربانی کی کھال دیناجائزهے.
3: مدارس اسلامیه کےغریب اورنادارطلباء ان کھالوں کابهترین مصرف هیں که اس میں صدقه کاثواب بھی هےاحیاےعلم دین کی خدمت بھی,  مگرمدرسین وملازمین کی تنخواه اس سےدیناجائزنهیں

(مسائل قربانی)
میسج#19
قربانی کی کھال:
4: ایسے هسپتال اورشفاخانے جن میں غریبوں کامفت علاج کیا جاتاهو اورصدقات وزکوة کا الگ حساب رکھا جاتاهو اور صرف غریبوں کو ادویات وغیره مفت دی جاتی هوں تو ایسے شفاخانوں اور هسپتالوں کوقربانی کی کھالیں دی جاسکتی هیں.
*مرکزی اشاعت گجرات سروس*
# 03035372486

*نمازعیدکاطریقه*
جب نمازعیدکےلئے کھڑاهوتونیت باندھ کرسورة ثناء هڑھے.
جب ثناء ختم کرچکےتوکانوں تک هاتھ اٹھاکرتین تکبیریں کهے, هردفعه هاتھ کھلے چھوڑدے.
پھرهاتھ باندھ کرسورة فاتحی اور کوئی سورت پڑھےاور بدستوررکعت پوری کرے.
اب دوسری رکعت میں رکوع سے پهلےبدستور کانوں تک هاتھ اٹھا کرتین تکبیریں کهے.
اورهربارهاتھ کھلےچھوڑدے.
اورچوتھی بارتکبیرکھه کرهاتھ اٹھائےبغیررکوع میں چلاجائے اورپھرعام نمازکی طرح دوسری رکعت پوری کرے.

(بقیه میسج)
نمازعیدکاطریقه:
نمازکےبعدخطیب کھڑاهو کردوخطبےپڑھے.
دوسراخطبه پڑھنے کےبعدلوگ منتشرهوجائیں.
اسکےبعد هاتھ اٹھاکردعامنگنامنقول نهیں هے.

 تکبیرات تشریق:
9 ذی الحجه کی نمازفجرسےلے کرتیره کی نمازعصر تک هرباجماعت نمازکےبعدایک دفعه بلندآواز سےتکبیرات تشریق کاکهناواجب هے
زیاده بلندآواز سےمطلب چلاچلا کرکهنانهیں بلکه اس قدرجسےساتھ والا آدمی سن سکے
تکبیرتشریق یه هے
الله اکبر الله اکبر لااله الا الله والله اکبر الله اکبر ولله الحمد

*مرکزی اشاعت گجرات*
FOLLOW MNTSPAK1
snd to 9900 & 40404


 تکبیرات تشریق:
9 ذی الحجه کی نمازفجرسےلے کرتیره کی نمازعصر تک هرباجماعت نمازکےبعدایک دفعه بلندآواز سےتکبیرات تشریق کاکهناواجب هے
زیاده بلندآواز سےمطلب چلاچلا کرکهنانهیں بلکه اس قدرجسےساتھ والا آدمی سن سکے
تکبیرتشریق یه هے
الله اکبر الله اکبر لااله الا الله والله اکبر الله اکبر ولله الحمد

*مرکزی اشاعت گجرات*
FOLLOW MNTSPAK1
snd to 9900 & 40404


(مسائل قربانی)
قربانی کےصرف تین دن هیں
میسج#1
غیرمقلدین کاعقیده هے که قربانی کے چار دن هیں اوروه اس سلسله میں کچھ روایات پیش کرتے هیں جوکه ضعیف هیں,
جبکه حضرت عبدالله بن عمر رض سےصحیح سندکےساتھ ثابت هےکه وه فرماتے هیں که قربانی تین دن هے. )اسی سلسلےمیں هفت روزه اهل حدیث میں عبدالستار حماد نےدلائل بھی دئے هیں که قربانی چاردن هے)
هفت روزه اهل حدیث جلد٣٨ ٢٧ اپریل تا٣ مئی ٢٠٠٧ء


(مسائل قربانی)
قربانی کےصرف تین دن هیں
میسج#2
1: سیدناعبدالله بن عمر رض نےفرمایا "الاضحی یومان بعدیوم الاضحی"
قربانی والےدن کےبعد(مزید) دودن قربانی هوتی هے.
(موطاامام مالک جلد٤ صفحه٤٨٧ ح١٠٧١ وسنده صحیح, السنن الکبری للبهیقی ٦٩٧/٩)
2:
سیدناعبدالله بن عباس رض نےفرمایا "قربانی کےدن کےبعد دودن قربانی هے اورافضل قربانی نحر والے(پهلے) دن هے.
(احکام القرآن للطححاوی ٢٠٥/٢ ح١٥٧١
وسنده حسن)


(مسائل قربانی)
قربانی کےصرف تین دن هیں
میسج#3
3:
سیدناانس بن مالک نےفرمایا: "الاضحی یومان بعده"
قربانی والے(اول) دن کےبعددو دن قربانی هوتی هے.
(احکام القرآن للطحاوی ٢٠٦/٢ ح ١٥ء٧ وھوصحیح)
4:
سیدنا علی رض نےفرمایا: "النحرثلاثة ایام". قربانی کے تین دن هیں.
(احکام القرآن للطحاوی ٢٠٥/٢ ح١٥٦٩ وھوحسن)


(مسائل قربانی)
قربانی کےصرف تین دن هیں
میسج#4
"قربانی کےتین دن هیں عیدکادن, اوردودن اسکےبعدکے,
اوریهی قول حضرت عمر رض, حضرت علی رض, حضرت عبدالله بن عمر رض, حضرت عبدالله بن عباس رض, حضرت ابوهریره رض اورحضرت انس رضی الله عنهم اجمعین کابھی هے. حضرت امام احمد رح نےکهاکه قربانی کےتین دن هیں اوریهی بهت سےصحابه کرام سے مروی هےاوریهی قول امام مالک رح, امام ثوری رح اورامام ابوحنیفه رح کابھی هے"
(المغنی جلد٨ صفحه ٩٣٨)

شب برات

شب_برات:
15 شعبان جسےلوگ شب_برات کہتےھیں، یہ نام قرآن وسنت سے ثابت نھیں ھے، لوگوں نے اپنی طرف سے بنایا ھے.

‏(2)
شب_برات:
15 شعبان کی رات میں کسی قسم کی نفل نماز کی فضیلت والی احادیث صحیح نھیں ھیں.
(موضوعات ملا علی قاری رح :ص 165)

‏(3)
شب_برات:
15 شعبان کی رات کسی بھی قسم کی نفل نماز کی روایات موضوع (من گھڑت) ھیں.
#موضوعات_ابن_جوزی: 127/2


 (4)
شب_برات:
15 شعبان کی رات روحیں گھر آتی ھیں اور دیکھتی ھیں کہ کسی نے ھمارے لۓ کچھ پکایا ھے یا نھیں، یہ غلط ھے.
#اغلاط العوام:157

‏(5)
شب_برات:
15 شعبان کو آتشبازی کرنا رسم اور گناہ ھے، اور حلوہ پکانا بھی رسم ھے.
#اصلاح الرسوم: 25,156

‏(6)
شب_برات:
اللہ کی بارگاہ میں اعمال صرف  15 شعبان کو یا کسی خاص رات میں پیش نھیں ھوتے بلکہ ھر روز پیش ھوتے ھیں.
حوالہ اگلےمیسج میں

 ‏(7)
شب_برات:
حدیث:
رات کے اعمال دن سے پہلے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں پیش کر دیۓ جاتے ھیں.
#مسلم: 447

‏(8)
شب_برات:
15 شعبان کے روزہ کے متعلق صرف ایک روایت ھے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ابن_ماجہ: 1388 جوکہ سند کے لحاظ سے نھایت ضعیف ھے.

‏(9)
شب_برات:
15 شعبان کی رات کو عبادت اور دن میں روزہ رکھنے کی فضیلت والی روایت موضوع ھے
#المجموعہ فی الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ: 1/148

(10)
شب_برات:
15 شعبان کے روزے کے متعلق ابن_ماجہ کی روایت سند کے لحاظ سے نھایت ضعیف ھے
#معارف الحدیث: 4/126 مولانامنظورنعمانی رحمہ اللہ

‏(11)
15 شعبان کی رات میں دعاء واسغفار کے متعلق کوئ ایک حدیث بھی قابل_اعتماد نھیں ھے.
#معارف_الحدیث: 4/126
مولانامنظورنعمانی رح

‏(12)
شب_برات:
15 شعبان کی رات کوچوں، بازاروں اور اسی طرح مساجد میں چراغ جلانا (چراغاں کرنا) بدعت ھے.
#البحرالرائق: 5/215

‏ابن العربی رحمہ اللہ کا فرمان؛
15 شعبان کی رات کی فضیلت اور اس میں تقدیر لکھی جانے والی کوئی روایت قابل اعتماد نہیں۔
(احکام القران۔ 117/4)


*شب براءت*
ملا علی قاری رحمہ االہ نے فرمایا:
مجھے ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو حدیث کا تھوڑا بہت علم رکھتے ہیں مگر پھر بھی۔۔۔۔۔
<جاری ہے>


*شب براءت*
مگر پھر بھی 15 شعبان والی بکواس پر عمل کر کے (نفل) نماز پڑھتے ہیں۔
"ملا علی قاری رحمہ اللہ"
(موضوعات کبری۔ ص 462)


*شب براءت*
ابن دحیہ ر.ح نےفرمایا:
شب براءت کی (نفل) نماز والی روایات موضوع و من گھڑت ہیں
(تذکرۃالموضوعات۔ ص 45)


*شب براءت*
زيد بن اسلم ر.ح نے فرمایا:
مشائخ و فقہاء میں سے کوئی بھی 15 شعبان کی فضیلت کی طرف متوجہ نہیں تھا۔
(تذکرۃ الموضوعات۔ ص 45)

معاویه رض

معاویه بن ابو سفیان کون ؟

ہجرت مدینہ سے تقریباً 15 برس قبل مکہ میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ اعلان نبوت کے وقت آپ کی عمر کوئی چار برس کے قریب تھی۔ جب اسلام لائے تو زندگی کے پچیسویں برس میں تھے۔ فتح مکہ کے وقت پیغمبر اسلام نے انکے والد حضرت ابوسفیان کے گھر کو دار الامن قرار دیا۔ یعنی جو شخص ان کے گھر چلا جائے وہ مامون ہے۔ اور ان کے بیٹے معاویہ رضي الله عنه کو کاتب وحی مقرر کیا۔ اس کے علاوہ بیرون ملک سے آئے ہوئے لوگوں اور ملاقاتیوں کی مہمان نوازی اور دیکھ بھال کا کام بھی آپ کے سپرد تھا۔ یہ دور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کا آخری حصہ تھا۔ اس لیے امیر معاویہ رضي الله عنه زیادہ عرصہ آستانہ نبوت سے منسلک نہ رہ سکے۔

عهد صدیقی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے بھائی یزید بن ابوسفیان کو شام کے محاذ پر بھیجا تو معاویہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ عہد فاروقی میں یزید کی وفات کے بعد آپ کو ان کی جگہ دمشق کا حاکم مقرر کیا گیا۔ رومیوں کے خلاف جنگوں میں سے قیساریہ کی جنگ آپ کی قیادت میں لڑی گئی جس میں 80 ہزار رومی قتل ہوئے تھے ۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے آپ کو دمشق ،اردن ، اور فلسطین تینوں صوبوں کا والی مقرر کیا اور اس پورے علاقہ کو شام کا نام دیا گیا۔ والی شام کی حیثیت سے آپ کا بڑا کارنامہ اسلامی بحری بیڑے کی تشکیل اور قبرص کی فتح ہے۔ حضرت عثمان رضي الله عنه آپ پر بہت اعتماد کرتے تھے اور آپ کا شمار عرب کے چار نامور مدبرین میں ہوتا تھا۔

امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خوارج سے مقابلہ کیا، مصر، کوفہ، مکہ، مدینہ میں باصلاحیت افراد کو عامل و گورنر مقرر کیا، مصر میں عمرو بن العاص- رضی اللہ عنہ- کو حاکم بنایا، پھر ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمرو بن العاص کو بنایا، ان کے دور حکومت میں جوبیس سال کو محیط ہے۔ سجستان، رقہ، سوڈان، افریقہ، طرابلس، الجزائر اور سندھ کے بعض حصے فتح کیے گئے۔ ان کا دور حکومت ایک کامیاب دور تھا، ان کے زمانہ میں کوئی علاقہ سطلنت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوا، بلکہ اسلامی سلطنت کا رقبہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔

عقیده علم غیب

=عقیدہ علم غیب=
میسج#1
علم کی تعریف: کسی چیز کی مکمل حقیقت جان لینا. (المنجد. صفحہ 677) (القاموس الوحید. صفحہ 1119) (مصباح اللغات. صفحہ 573) غیب کی تعریف: وہ چیز جو بندوں سے پوشیدہ ہو، جس پر کوئی دلیل قائم نہ ہو اور مخلوق کو اسکی اطلاع نہ ہوسکے. (تفسیر مدارک. ص 227. ج 2) (مصباح اللغات. ص 613) (القاموس الوحید. ص 1192) (تفسیر ابن کثیر. ص 41. ج 1) (تنویر المقیاس. ص 192. ج 2) (تفسیر السراج المنیر. ص 250. ج

=عقیدہ علم غیب=
میسج#2
علم غیب کی تعریف: پوشیدہ چیزوںکا وہ علم جوکسی واسطے اور ذریعےکےبغیر حاصل ہو اسے علم غیب کہتے ہیں. <تفصیل کیلئے دیکھئے> (النبراس علی شرح العقائد. ص 574) (شرح فقہ اکبر.. ص 155) علم غیب کی اس تعریف سےمعلوم ہواکہ انبیاء علیہم السلام، اولیاءکرام رحمہم اللہ، ڈاکٹرز اور سائنسدان کسی پوشیدہ چیزکی خبردیں تووہ علم غیب نہیںہوگا کیونکہ اسمیں "وحی" "الہام" اور "آلات" کا واسطہ اور ذریعہ ہوتاہے.

=عقیدہ علم غیب=
میسج#3
عقیدہ: اللہ نےاپنے فضل وکرم سے انبیاءعلیہم السلام اوراولیاءکرام رحمہم اللہ کو وحی اورالہام کےذریعےبہت سےعلوم عطافرمائے. خصوصاحضرت محمدمصطفی علیہ السلام کوجتنی غیب کی خبریں اورجتنےعلوم عطاہوئےوہ کسی اورکوعطانہیںہوئے لیکن جوکچھ ہوچکاہے، جوکچھ ہورہاہےاور جوکچھ ہوناہےانکامکمل اورمحیط علم صرف اللہ کےپاس ہے. اللہ کےسواکسی اورہستی کیلئےذاتی یاعطائی طورپر مکمل اورمحیط علم غیب ماننا شرک ہے..

=عقیدہ علم غیب=
میسج#4
درس قرآن: اوریقیناہم جانتےہیں انکوبھی جوگزرچکے ہیں تم میںسےاور یقیناہم جانتےہیں بعدمیںآنےوالوں کو. (سورۃالحجر. آیت 24) <ترجمہ: ضیاءالقران از پیرکرم شاہ صاحب> یعنی جولوگ پہلےگزرچکے، جوزندہ ہیںاورجو قیامت تک آئیںگےان سب کےحالات صرف اللہ جانتاہے (تفسیربیضاوی. ص 540. ج 1) (تفسیرخازن. ص 94. ج 3) (تفسیرابن کثیر. ص 568. ج 2) (تفسیرمدارک. ص 580) (مراغی. ص 18. ج 14) (التفسیرالمنیر. ص 18. ج

=عقیدہ علم غیب=
میسج#5)
درس قرآن: وہ جانتا ہے لوگوں کے آنے والے حالات کو اور انکے گزرے ہوئے واقعات کو اور لوگ نہیں احاطہ کر سکتے اس کا اپنے علم سے. (سورۃ طہ'. آیت 110) <ترجمہ: ضیاءالقران از پیر کرم شاہ صاحب> تفسیر: گزشتہ، موجودہ اور آئندہ کے تمام حالات کو جاننے والا صرف اللہ ہی ہے.. (تفسیر مراغی. ص 13. ج 3) (ابن کثیر. ص 318. ج 1) (تفسیر الماوردی. ص 324. ج 1) (تفسیربیضاوی. ص 133. ج 1) (ابن جریر. ص 7. ج 3)

=عقیدہ علم غیب=
میسج#6
درس قرآن: ہر مادہ کے حمل کو اللہ ہی جانتا ہے اور ہر رحم میں جو کمی اور زیادتی ہوتی ہے اسکو بھی وہی جانتا ہے اور ہر چیز کا اسکے نزدیک ایک اندازہ ہے وہ ہر غیب اور ہر ظاہر کو جاننے والا ہے سب سے بڑا نہایت بلند ہے. (سورۃ الرعد. آیت 9) <ترجمہ: تبیان القران از شیخ غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب> اللہ تعالی ہمیں ضد و عناد اور تعصب چھوڑ کر قرآن کےمطابق عقائد بنانےکی توفیق عطافرمائے. آمین..

=عقیدہ علم غیب=
میسج#7
درس قرآن: وہ آسمان سے زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھر وہ کام اس کی طرف اس دن چڑھے گا جسکی مقدار تمہارے گننے کے مطابق ایک ہزار سال ہے، وہی عالم الغیب ہے اور عالم الظاہر ہے بہت غالب اور بےحد رحم فرمانے والا ہے.(سورۃ حم السجدہ. آیت 5، 6. پارہ 21) <ترجمہ: تبیان القران از شیخ غلام رسول سعیدی صاحب> اللہ تعالی ہمیں ضد اور تعصب چھوڑ کر قرآن کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین..

=عقیدہ علم غیب=
میسج#8
درس قرآن: بےشک اللہ جاننے والاہے آسمانوں اور زمین کی ہرچھپی بات کا، بےشک وہ دلوں کی بات جانتاہے. (سورۃفاطر. آیت 38) درس قرآن: وہی اللہ ہےجسکے سوا کوئی معبود نہیں، ہر نہاںوعیاں کا جاننےوالا وہی ہے بڑامہربان رحمت والا. (سورۃالحشر. آیت 22) درس قرآن: وہی اول، وہی آخر، وہی ظاہر، وہی باطن اوروہی سب کچھ جانتاہے. (سورۃ الحدید. آیت 3) <ترجمہ: کنزالایمان از اعلیحضرت احمدرضاخان صاحب>

=عقیدہ علم غیب=
میسج#9
درس قرآن: تو فرمایا کیامیں نے تم سےنہیں کہاتھاکہ میںہی آسمانوں اور زمین کاغیب جاننے والاہوں اور جسکوتم ظاہرکرتےہو اور جسکوتم چھپاتے تھےمیں وہ سب جانتاہوں. (البقرۃ. آیت 33) <ترجمہ:تبیان القران ازغلام رسول سعیدی صاحب> درس قرآن: یہ اسلئےکہ تم یقین کروکہ اللہ جانتاہےجوکچھ آسمانوںمیں ہےاورجوکچھ زمین میںاوریہ کہ اللہ سب کچھ جانتاہے (المآئدۃ. آیت 97) <ترجمہ: کنزالایمان ازاعلیحضرت>

=عقیدہ علم غیب=
میسج#10
علم غیب کے میسج#9 تک جوچند آیات ذکرہوئی ہیں ان سے ثابت ہوتاہےکہ غیب کا مکمل علم اورجمیع ماکان ومایکون (یعنی گزشتہ، موجودہ اورآئندہ حالات) کا مکمل علم اللہ ہی کے پاس ہے. اور چونکہ یہ تمام آیات اللہ کے علم غیب کے کمال و تعریف میں بیان ہوئی ہیں اسی لئے اگر اللہ کے علاوہ کسی اور ہستی کیلئے بھی علم غیب کی صفت تسلیم کی جائے تو پھر اللہ کیلئے "عالم الغیب" ہونے کا کمال باقی نہیں رہتا..

=عقیدہ علم غیب=
میسج#11
درس قرآن: کہتےہیںاس رسول پراسکےرب کیطرف سےکوئی معجزہ کیوںنہیںنازل کیاگیا؟ آپ کہیےکہ غیب توصرف اللہ ہی کیلئےہے سوتم بھی انتظارکرو اورمیں انتظارکرنےوالوں میںسےہوں (س:یونس. آیت20) <ترجمہ:تبیان ازشیخ سعیدی صاحب> تفسیر:یعنی معجزہ میرےبس میںنہیں اورغیب کاعلم صرف اللہ کےساتھ خاص ہے، نہ میںغیب جانتاہوں نہ تم جانتےہو (ایسرالتفاسیر. ص 266 ج 2) (مراغی ص 86 ج 11) (ابوسعود ص133. ج3)

=عقیدہ علم غیب=
میسج#12
درس قرآن: اوراللہ ہی کیلئےہیں آسمانوں اورزمین کےغیب اوراسی کیطرف سب کاموںکا رجوع ہے (س:ھود. آیت 123) <ترجمہ: کنزالایمان ازاعلیحضرت> تفسیر: زمین وآسمان کی ہرپوشیدہ چیزکاعلم صرف اللہ ہی کےساتھ خاص ہے، علم غیب میںمخلوق کاکچھ حصہ نہیںاور اللہ کےسوا کوئی بھی زمین وآسمان کامکمل علم غیب نہیںجانتا (روح المعانی ص167. ج 12) (البحرالمحیط. ص 275 ج5) (بیضاوی ص 458. ج1) (مظہری. ص 130 ج5)

=عقیدہ علم غیب=
میسج#13
سورۃھود کی آیت 123 کی تفسیرکرتے ہوئے مفسرابن جریرعلیہ الرحمۃ فرماتےہیں: اللہ اپنے نبی سےفرمارہاہےکہ اےمحمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) زمین وآسمان کاہروه غیب جس پر آپ کواطلاع نہیںہے اورجسے آپ نہیںجانتے وه سب کا سب اللہ ہی کےساتھ خاص ہے (تفسیرابن جریر. ص 89. ج 7) مفسرمراغی علیہ الرحمۃ فرماتےہیں: اےرسول! جوکچھ بھی آپ کے اور ان کے علم سے غائب ہے اسے اللہ جانتا ہے (مراغی. ص 101. ج 4)

=عقیدہ علم غیب=
میسج#14
درس قرآن: آسمانوں اور زمینوںکاسب غیب کاعلم اللہ ہی کےساتھ خاص ہے (النحل آیت 77) <ترجمہ:تبیان> پیرکرم شاہ صاحب تفسیرکرتےہیں: اب اللہ تعالی کےعلم اورقدرت کی دلیل پیش کی جارہی ہےکہ اللہ تعالی وه ذات ہےکہ آسمانوںاورزمینوں کےتمام غیبوںکاجاننااسی کےساتھ مخصوص ہے (ضیاءالقران ص 589) بقیہ مفسرین نےبھی اسیطرح تفسیر فرمائی ہے اس آیت کےتحت دیکھئے> (ابوسعود،طبری،خازن، ابن کثیر،کبیر، روح المعانی)

=عقیدہ علم غیب=
میسج#15
درس قرآن: اسی کیلئےہیں آسمانوںاورزمینوں کےسب غیب، وه کیاہی دیکھتااورکیاہی سنتاہے، اسکےسوا انکاکوئی والی نہیں اوروه اپنےحکم میںکسی کوشریک نہیںکرتا (سورۃالکہف. آیت 26) <ترجمہ: کنزالایمان ازاعلیحضرت> تفسیر: زمین وآسمان کاتمام علم غیب صرف اللہ کےساتھ خاص ہے، اللہ اپنےفیصلوںمیں اوراپنےعلم غیب میںکسی کوبھی شریک نہیںکرتا. (تفسیرمدارک. ص 639) (مظہری. ص 28. ج 6) (ماوردی. ص 300. ج 3)

=عقیدہ علم غیب=
میسج#16
درس قرآن: آپ (علیہ السلام) فرمادیجئےکہ اللہ کےسوا آسمانوںاور زمین میںکوئی بھی غیب نہیںجانتا. (سورۃالنمل. آیت 65) تفسیر: آسمانی مخلوق یعنی فرشتےاور زمینی مخلوق یعنی جن و انسان اورپھرانسانوں میںسے انبیاءعلیہم السلام بھی تمام غیب نہیںجانتے. غیب کاعلم صرف اللہ کےپاس ہےاورکسی کوبھی عطانہیںہوا. (تفسیرخازن. ص 125 ج 5) (ابن کثیر. ص 372. ج 3) (مظہری. ص 166. ج 7) (قرطبی. ص 225. ج 13

=عقیدہ علم غیب=
میسج#17
"لاالہ الااللہ" میں حرف_نفی(یعنی حرف_"لا") کےذریعےاللہ کےسواتمام مخلوق سے"ذاتی وعطائی طورپرمعبود" ہونےکی نفی کی گئی پھر"الااللہ" سےصرف اللہ کو"معبود" ثابت کیاگیابالکل اسیطرح "میسج#16"میں "س:النمل.آیت65" میںبھی سب سےپہلے"حرف_لا" (یعنی لایعلم من في السموت والارض الغیب) کےذریعےزمین وآسماںکی سب مخلوق سےذاتی وعطائی علم غیب کی نفی کی گئی،پھر"الااللہ" کےذریعےصرف اللہ کےلئےعلم غیب خاص کیاگیا

=عقیدہ علم غیب=
میسج#18
"سورۃالنمل.آیت65 کی تفسیر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی زبانی" تمام مؤمنوںکی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانےفرمایا: جوشخص تمہیںکہےکہ حضرت محمدمصطفی علیہ السلام غیب جانتےتھےتویقینا وه شخص جھوٹاہے کیونکہ اللہ تعالی توفرماتاہےکہ "زمین و آسمان میں اللہ کےسوا کوئی بھی غیب نہیںجانتا" (بخاری. کتاب التوحید. ص 1098. ج 2. حدیث 7380) اللہ ہمیںقرآن وسنت کی صحیح سمجھ عطافرمائے.آمین.

=عقیدہ علم غیب=
میسج#19
*جنات بھی عالم الغیب نہیں ہیں* درس قرآن: (جنات نے آپس میں کہا) بےشک ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کےساتھ برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب نے انکےساتھ بھلائی کا ارادہ فرمایا ہے. (سورۃ الجن. آیت 10. پارہ 29) درس قرآن: جب سلمان علیہ السلام فوت ہوکر گر پڑے تو جنوں کی حقیقت ظاہر ہوگئی کہ اگر وه (جن) غیب جانتے ہوتے تو ذلت کے عذاب میں گرفتار نہ رہتے. (سورۃ سبا. آیت 14. پارہ 22)

=عقیدہ علم غیب=
میسج#20
*فرشتے بھی عالم الغیب نہیں ہیں* درس قرآن: اللہ تعالی نے (فرشتوں سے) فرمایا؛ بےشک میں وه کچھ جانتاہوں جو تم نہیںجانتے (سورۃالبقرۃ. آیت 30) درس قرآن: فرشتےکہنےلگے؛ تو ہر عیب سےپاک ہے، ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتناکہ تو نے ہمیں سکھادیا، بےشک تو ہی علم و حکمت والاہے (سورۃالبقرۃ. آیت 32) ان آیات میں اللہ تعالی کے فرمان اورخود فرشتوںکےاقرار سےثابت ہواکہ فرشتےبھی عالم الغیب نہیں ہیں..

=عقیدہ علم غیب=
میسج#21
*کیااولیاءکرام رحمہم اللہ غیب جانتےہیں؟*درس قرآن:یونہی ہم نےان(اصحاب کہف)کو جگایاکہ ایکدوسرے سےاحوال پوچھیں، انمیںاک کہنےوالابولا تم یہاںکتنی دیررہے؟ کچھ بولےاک دن رہےیادن سےکم، دوسرےبولے تمہارارب خوب جانتاہےجتناتم ٹھہرے(الکہف. آیت 19)اصحاب کہف اللہ کےولی تھےمگرانکو اپنےسونےکی مدت کابھی علم نہیںتھا.جب زندہ اولیاءکواپنےحال کامکمل علم نہیںتوفوت شدہ کودوسروںکےحال کاعلم کیسےہوسکتاہے؟

=عقیدہ علم غیب=
میسج#22
*اولیاء عالم الغیب نہیں* مریم ع.س کی والدہ نےنذرمانی کہ میراجوبچہ پیداہواوه اللہ کی راہ میںوقف ہے.جب لڑکےکی بجائےلڑکی(یعنی مریم ع.س) پیداہوئیںتوانکی والدہ پریشان ہوئیںکہ میںاپنی نذرکیسےپوری کروں؟ کیونکہ انکی شریعت میںلڑکی کووقف کرنا ناجائزتھا (پڑھئے:سورۃآل عمرن. آیت 35-36) مریم ع.س کےوالد اوروالدہ نیک اورولی تھے،اگرانکوپتہ ہوتاکہ لڑکی پیداہوگی تو نذرماننےاورپریشان ہونےکی ضرورت نہیں تھی

=عقیدہ علم غیب=
میسج#23
*اولیاء عالم الغیب نہیں*درس قرآن: اس(مریم ع.س)کیطرف ہم نے اپناروحانی بھیجا وه اسکےسامنےایک تندرست آدمی کےروپ میںظاہرہوا.بولی میںتجھ سےرحمن کی پناہ مانگتی ہوں اگرتجھےخداکاڈرہے.بولا میںتیرےرب کابھیجاہواہوں(س:مریم. آیت 17 تا 19)<ترجمہ:کنزالایمان>مریم ع.س بہت بڑی ولیہ خاتون تھیں لیکن پھربھی غیب نہیں جانتی تھیں، اگرغیب جانتی ہوتیںتو فرشتےکو اجنبی مرد سمجھکرپناہ نہ مانگتیں.

=عقیدہ علم غیب=
میسج#24
*اولیاءعالم الغیب نہیں*درس قرآن:قریب ہےکہ کوئی بات تمہیںبری لگےاوروه تمہارےحق میںبہترہواورقریب ہےکہ کوئی بات تمہیںپسند آئےاوروه تمہارےحق میںبری ہواوراللہ جانتاہےاورتم نہیںجانتے(البقرۃ. آیت 216)<ترجمہ:کنزالایمان>یہ خطاب سب سےپہلے صحابہ رضی اللہ عنہم كوہواجوسب سےبڑےاولیاءہیں. اگراولیاءعالم الغیب ہوتےتوصحابہ کرام اپنی بہتری کی تمام باتیںجانتےہوتے اوراللہ یہ نہ فرماتاکہ"تم نہیں جانتے"

=عقیدہ علم غیب=
میسج#25
*اولیاء عالم الغیب نہیں* درس قرآن: اورجتنی قوت ہوسکےتم ان کیلئے تیاررکھو اورجتنےگھوڑے باندھ سکوکہ ان سے اللہ کےدشمنوں اوراپنےدشمنوں پر رعب بٹھاؤ اورکچھ اوروں پر رعب بٹھاؤ جنكو تم نہیںجانتے اللہ انکوجانتاہے (الانفال. آیت 60) یہ خطاب سب سےپہلے صحابہ رضی اللہ عنہم كوہوا جو اعلی درجہ کےولی تھے. اگراولیاء غیب جانتےہوتےتو اللہ تعالی صحابہ کرام سے یہ نہ فرماتاکہ "تم انكونہیںجانتے"

=عقیدہ علم غیب=
میسج#26
*انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام بھی عالم الغیب نہیں* "تمام انبیاءعلیہم السلام کااجماعی عقیدہ" درس قرآن: جس دن اللہ جمع فرمائےگا رسولوںكو، پھرفرمائےگا تمہیںکیاجواب ملا؟ عرض کریںگے ہمیںکچھ علم نہیںبےشک توہی ہےسب غیبوںکاجاننے والا (المآئدۃ. آیت 109) <ترجمہ:کنزالایمان> معلوم ہواکہ تمام انبیاءعلیہم السلام کاعقیدہ یہی تھاکہ غیب جاننےوالاصرف اللہ ہےاورکوئی بھی نبی یاولی غیب نہیںجانتے.

=عقیدہ علم غیب=
میسج#27
*آدم علیہ السلام بھی عالم الغیب نہیں* درس قرآن: اوربےشک ہم نےآدم كواس سےپہلےایک تاکیدی حکم دیاتھاتووه بھول گیااورہم نےاسکاقصد نہ پایا (سورۃطه. آیت 115. پارہ 16) <ترجمہ:کنزالایمان> اللہ نےآدم علیہ السلام كوایک درخت سےروکاتھا مگرشیطان کےدھوکےمیں آکرآدم علیہ السلام بھول گئےاوردرخت کھابیٹھے.اس واقعہ سےمعلوم ہواکہ آدم علیہ السلام عالم الغیب نہیںکیونکہ جوعالم الغیب ہووه بھولتانہیں.

=عقیدہ علم غیب=
میسج#28
*نوح علیہ السلام بھی عالم الغیب نہیں* "نوح علیہ السلام کااپنےبارےمیں فرمان" درس قرآن: اورمیںتم سےنہیں کہتاکہ میرےپاس اللہ کےخزانےہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جان لیتاہوں اور نہ یہ کہتاہوں کہ میںفرشتہ ہوں (سورۃھود. آیت 31. پارہ 12) <ترجمہ:کنزالایمان> اس آیت میں نوح علیہ السلام کےاپنےبارےمیں فرمان سےواضح ہواکہ نوح علیہ السلام عظیم الشان پیغمبر ہونےکےباوجود بھی عالم الغیب نہیں تھے.

=عقیدہ علم غیب=
میسج#29
*نوح علیہ السلام بھی عالم الغیب نہیں* جب طوفان میں نوح علیہ السلام کابیٹا کنعان غرق ہونےلگاتو نوح علیہ السلام نےاسےمؤمن سمجھکر اسکی نجات کیلئےاللہ سےسوال کیاتو اللہ نےفرمایا: وه تیرےاہل سےنہیں،اسکے کام اچھےنہیں، تومجھ سےاس بات کاسوال نہ کرجسکا تجھےعلم نہیں (ھود. آیت 46) اگرنوح علیہ السلام عالم الغیب ہوتےتوانکو اپنےبیٹےکے متعلق تمام حقیقت معلوم ہوتی اور اللہ سےاسکےمتعلق سوال نہ کرتے.

=عقیدہ علم غیب=
میسج#30
*نوح علیہ السلام بھی عالم الغیب نہیں* درس قرآن: (کفار نے نوح علیہ السلام سے) کہا کیا ہم تجھ پر ایمان لائیں؟ حالانکہ تیری اتباع کرنے والے گھٹیا لوگ ہیں. نوح علیہ السلام نے فرمایا مجھے کیا علم کہ وه پہلے کیا کام کرتے رہے ہیں (سورۃ الشعرآء. آیت 111 تا 112) نوح علیہ السلام پر ایمان لانےوالے لوگ چھوٹی ذات اور چھوٹے خاندان سے تعلق رکھتےتھے اسی لئے کافرسرداروں نے یہ اعتراض کیاتھا.

=عقیدہ علم غیب=
میسج#31
*ابراہیم علیہ السلام عالم الغیب نہیں* قرآن:اوربےشک ابراہیم کےپاس ہمارےفرشتےبشارت لیکرآئے،وه بولےسلام ہو، ابراہیم(ع.س)بولے سلام ہو، پھرتھوڑی دیرمیں بھناہوابچھڑالےآئے. جب دیکھاکہ انکےہاتھ کھانےکیطرف نہیںبڑھ رہےتوانکواجنبی سمجھااوردل میںخوف کیا،وه بولےنہ ڈر!ہم قوم لوط کیطرف بھیجےگئےہیں (ھود. آیت 69، 70) ابراہیم(ع.س) عالم الغیب ہوتےتو انکوپہلےمعلوم ہوتا اوربچھڑا بھوننےاورڈرنےکی ضرورت نہ ہوتی

Monday, January 4, 2016

حقیقت_میلاد

ی میں ایک عیاش اور بدکرداربادشاه ابو سعیدمظفر شاه اربل نےعوام کی نظروں میں مقبولیت حاصل کرنےکےلئےمنقعدکی*علامه ذهبی فرماتےهیں "وه هرسال مجلس میلادکی تقریب کی آرائش وزیبائش پرتین لاکھ روپے خرچ کرتاتھا"چناچه علامه جلال الدین سیوطی فرماتےهیں""سب سےپهلاشحض جس نےمجلس میلادکوایجادکیاابن المظفرابوسعیدهے جوبڑےبادشاهوں میں تھا"(حسن المقصدفی عمل المولد)

*حقیقت_میلاد*
<میسج3>
(میلادکےبارےمیں بریلوی علماءکے متضادا قوال)
*عیدمیلادمباح <جائز> ہے (الامن والعلی،باب2ص263، احمدرضاخان) *عیدمیلادسنت_الہیہ ہے.
(جاءالحق.حصہ1.ص191.احمدیارخان)
انوار_ساطعہنور نمبر4.ص550پر م.عبدالسمیع انصاری نےاسکوواجب لکھاہے *شاہ تراب الحق قادری کےنزدیک مستحب ہے (عیدمیلادالنبی کی شرعی حیثیت.ص1)
*مفتی عبدالقیومھزاروی کےنزدیک یہ عیدمیلاد'بدعت_حسنہ'ہے.
(عقائدومسائل ص75

*حقیقت_میلاد*
[میسج#4]
ھماری فقہ کی کتابوں میں1باب ہے'باب  العیدین'1عیدہےرمضان والی دوسری عیدہےقربانی والی.
دونوں عیدوں میں 2رکعتیں واجب ہیں. اب:ان میلادی مولویوں سےپوچھیئےگا. کہ جو12ربیع الاول کوتم نےعیدمنانی ہے اس عیدکی نمازکی رکعتیں ھیں؟. ذرا اس سوال کا جواب ھمیں فقہ کے کتابوں سےحل کرکے دیدو.

*حقیقت_میلاد*
(میسج#5)
آپ صہ کی ولادت کی تاریخ کےمتعلق چند اقوال:
¤حافظ ابن_عبدالبر،علامہ واقدی کےنزدیک آپ صہ کی ولادت با سعادت2ربیع الاول کوھوئی.
¤امام حمید،ابن_حزم، مالک،یونس بن یزیدامام زھری،محمدبن جبیر،حافظ کبیر، محمدبن موسی،حافظ ابوالخطاب بند حیہ جس نےمیلادالنبی کےموضوع پرسب سے پہلی کتاب لکھی.ان کےنزیک آپکی ولادت8ربیع الاول کادن ھے.
(جاری)

*حقیقت_میلاد*
(میسج#6)
¤حافظ اب_عساکر رحہ نےابوجعفرالباقر  رحہ سے،اورمجاھدرحہ نےشعبی رحہ سے10ربیع الاول کاقول نقل کیاہے.
¤ابن_اسحاق،ابن_ ابی شیبہ،عفان-عیذبن مینا،جابررحمہ،اورابن عباس رضہ کےقول کےمطابق آپکی تاریخ_ولادت 12ربیع الاول ہے.
¤مصرکے مشہورماھر_فلکیات محمودپاشا نےبڑےوزنی دلائل سےاس بات کو ثابت کیاھےکہ آپکی تاریخ_ولادت9ربیع الاول کادن بنتاہے.
¤.ماخوذمختصرا (سیرۃالنبیابن_کثیرج 1، ص 143)

*حقیقت_میلاد*
(میسج#7)
عیدمیلاد کاتذکرہ کرتےھوئے شیخ اسماعیل لکھتے ھیں کہ <قال السخاوی لم یفعلہ احدمن القرون الثلاثۃ> یعنی:تینوں زمانوں میں(صحابہ،تابعین وتبع تابعین کےدور میں) کسی نےبھی(عید  میلادالنبی) اسکو نہیں کیا.
(روح البیان ج 9، ص 56)
(جاری)

*حقیقت_میلاد*
(میسج#8)
<وقدسئل شیخ الاسلام حافظ العصر ابوا لفضل احمدبن حجرعن عمل المولود_فاجاب بمانصہ اصل عمل المولود'بدعۃ'لم تنقل عن احدمن السلف_الصالح> (الحاوی. للفتاوی ج1.ص199)
ابن_حجررحہ سےمیلادکے(خوشی منانے) کےبارےمیں پوچھاگیا،توآپ رح نےجواب دیا.کہ یہ بدعت ہےاسکی کوئی اصل(حقیقت)نہیں. کیونکہ یہ سلف صالحین (صحابہ،تابعین وغیرھم) سےثابت نہیں.
(جاری)

*حقیقت_میلاد*
(میسج#9)
علامہ ابن_عابدین رح فرماتےھیں <واقبح منہ النذربقراءۃالمولود فی المنایرمع اشتمالہ علی الغناءوالعبوایھاب ثواب ذالک الی حضرۃالمصطفی صہ>
(شامی|ج2|ص440)
میناروں میں مولود پڑھنےکی منت ماننا براہےکیونکہ اسمیں راگ،اورلعب ہوتاہے، اوراسکاثواب حضورصہ کوبخشاجاتاہے.
*علامہ تاج الدین فرماتےھیں <ان عمل المولود_بدعۃمذمومۃ>میلادمناناقابل_مذمت بدعت ہے.
(الحاوی.للفتاویج 1، ص 190)

*حقیقت_میلاد*
میسج#10
علامہ ابن_امیرالحاج مالکی رح کافتو ی: لوگوں کی ان بدعتوں،اورنئ ایجادات م سےجن کووہ بڑی عبادت،اورشعائر اسلام کااظہارسمجھتےھیں ان م سے1بدعت مجلس_میلادبھی ہے.جسکووہ ماہ_ربیع الاول م کرتےھیںجوکہ بہت سی بدعات،اورمحرمات پرمشتمل ہے.(مدخل|ج1|ص85، الحاوی.للفتاویج1|ص193تا195)*میلادقرآن وسنت،اور علماءامت سےمنقول نہیں بلکہ اس بدعۃکوباطل، شہوۃپسند،پیٹوقسم کےلوگوںنےایجاد کیاہے.(الحاوی للفتاوی ج1.ص190

*حقیقت_میلاد*
میسج#11عبدالرحمن مغربی رح کافتوی: میلادمنانابدعت ہی رسول اللہ صہ،خلفاء، آئمہ حضرات نےنہ تومیلادمنایانہ منانے کاکہا.
*علامہ شرف الدین حنبلی کافتوی:بعض امراءہرسال آپ صۂکی میلادمناتےھیں یہ بدعت ہے. جسکاصاحب_شریعت صہ نےحکم نہیں دیا.
*علامہ احمدبن محمدمصری:چاروں مذھب کےعلماء میلادکےمذمت پرمتفق ھیں.
*امام جلال الدین سیوطی رح: اس(میلاد)پرکوئ(قرآن وسنت)کی دلیل نہیں.جاری

*حقیقت_میلاد*
#12:
علامہ جلال الدین سیوطی رح کافتوی: <ولاجائزان یکون مباحالان الابتداع فی الدین لیس مباحباجماع المسلمین> یعنی:یہ میلادجائز نہیں.بایںطورکہ مباح ھو، کیونکہ دین میں بدعت مباح نہیں ھوتی.اس پرسب اہل اسلام کااجماع ہے.(الحاوی للفتاویج1،ص190)جولوگ میلادمیں راگ کےاشعارپڑھتے ھیں تو(اس اندازسے)پڑھنا،اورسنناحرام ہے.اورپڑھنےوالوںپر سخت خطرہ ہے.(کفرکا)کیونکہ وہاں کفریہ اشعارپڑھتےہیں)عین الھدایہ|4|224

بقیہ میسج#12
*حقیقت میلاد*
(میسج#13)
اکثر جاھل میلادخواں ایسےاشعار پڑھتے ھیں کہ ان اشعار کے کفریہ ھونے میں کسی کواختلاف نہیں، اور حرام سےکفر تک نوبت پہنچ جاتی ہے.
(عین الھدایہ ج4،ص224)
*مباح وہ فعل(کام)ہے  جس کےکرنےمیں ثواب ہو، اورنہ کرنے میں عذاب نہ ہو.
(بہشتی گوھرص2 بحوالہ:ردالمختار ج5.ص329)

*حقیقت_میلاد*
میسج#14
قاضی شہاب الدین رح کافتوی: <سئل قاضی عن مجلس المولود الشریفقال لاینعقدلانہ محدث.وکل محدث ضلالۃ.وکل ضلالۃ فی النار ومایفعلون من الجھال علی راس کل حول فی شہر ربیع الاول لیس بشئ عندذکرمولودہ صہویزعمون ان روحہ صہ یجئ وحاضرفرعمھم باطل بل ھذالاعتقاد شرک وقدمنع الائمۃ مثل ھذا.>(آئینۂ_بریلویت.ص  104، بحوالہ:تحفۃالقضاہ) عبارت کاترجمہ اگلےمیسج میں.

*میسج#15*
عربی عبارت کاترجمہ:قاضی شہاب الدین رح سےمجلس   میلادکےبارےمیں پوچھاگیا.توآپ رح نےجوابافرمایا:یہ مجلس منعقدنہ   کیجائےاسلۓکۂ یہ بدعت ہے.اورہربدعت گمراھی ہے.اورھر گمراھی جنہم م لےجانےوالی ہے.اوریہ جوجاھل لوگ ھرسال ماہ_ربیع الاول م کرتےہیںیہ کوئ چیز(حقیقت)نہیںاورتذکرۂ_ولادت کےوقت جووہ گمان کرتےھیںکہ   آپ ص کی روح تشریف لاتی ہے.توانکایہ گمان باطل،بلکہ یہ اعتقادتوشرک ہے.ائمہ نےاس جیسےکاموںسےروکاہے.

میسج#16
میلادکاجلوس نکالنےکی خرابیاں:*آپ صہ جیسی عظیم،پاک ھستی کی ولادت کی خوشی کےلۓصرف1دن کومحدود کردیاجاتاہے.باقی ساراسال کون اپنےیادکرتاہے؟اورپھریہ کہاجاتاہےکہ آج12ربیع الاول کادن مبارک دن ہے.ارےپاگل:1دن توھرنومولود بچےکےوالدین کےلئےبھی'مبارک' ھوتاہے.میںکہتاہوں:میرانبی جس دن پیداھوا.وہ دن بھی مبارک.وہ دن جس ھفتےم آیا،اوروہ ھفتہ جس ماہ م آیا،اوروہ ماہ جس سال م آیا،اوروہسال جس صدی م آیا وہ صدی بھی مبارک

*وفات النبی صہ*
میسج#:
مفہوم_حدیث:رسول اللہ صلےاللہ علیہ وسلم 11ھجری بروزبدھ ماہ_صفرکی آخری رات کوبیمارھوئے. اور12ربیع ا لاول پیرکےدن فوت ھوئے.
(کنزالعمالج7.ص254.ح#1879.کتاب الشمائل.راوی:علی رضہ ناشر:موسسۃالرسالہ بیروت)
اے12ربیع الاول کیسادیا تونےفراق! تاجدار_دوجہاں دنیاسےجارھیں ہیں.
غمگین ھیں کون ومکان.
فلک بھی اشکبارھے.
ابلیس کےحواری بڑی دھوم سےخوشیاں منارہیں ھیں.

*12ربیع الاول یوم_وفاۃالنبی صۂ*
*حقیقت_میلاد*
میسج#18:
اس بدعت کوکس نےایجادکیا؟
¤امام احمد بن محمدبصری رح کا فرمان: سلطان_اربل مظفرالدین کوکری1فضول خرچ  بادشاہ تھا. جواپنےدور کےعلماء کودسروں سےروکتا. اورانکو کہتاکہ اپنےا جتہاد پر عمل کرو. چنانچہ کچھ علماء(سوء) اسطرف مائل ھوگۓ.
*یہ بادشاہربیع الاول میں محفل_میلاد منعقد کرتاتھا. یہی پہلا حکمران تھا.  جس نےسب سےپہلے یہ بدعت کھڑی.
(القول المعتمد)

میسج#19:
علامہ ناصرفاکہانی رح نےلکھا: یہ بادشاہ محفل_میلاد میںگانےبجانےوالوں کوجمع کرتاتھا. اور راگ، مزامیرسن کر خودبھی،اوراہل_مجلس بھی ناچتےتھے. ایسےشخص کےفاسق، وگمراہ ھونےمیں کیاشک ہے؟ اور ایسےشخص کاقول وفعل کیسےحجت، اورقابل اعتمادہوسکتا ہے؟
(ردعمل المولد بحوالہ:فتاوی رشیدیہ.ص132)
اسکےہاں میلاد میں 5000بکرے ذبخ هوتےتھے
*بقول علامہ ذھبی:یہ بادشاہ میلاد پر3لاکھ خرچ کرتاتھا
(دول الاسلام)

میسج#20:
اس حکمران نےمیلاد کےلۓبہت سےقبے بنارکھےتھے.
جسمیں گانےباجے،کھیل، تماشے،ناچنےکودنے والےبیٹھتےتھے.
*خودیہ بادشاہ روزعصرکےبعدان قبوں میں جاکرناچ،راگ سنتا.پھرخودناچتا. حتی کہ اس لہب ولعب میں رات بھی گذرجاتی تھی.
*عمربن دحیہ نےاس حکمران کی خوشنودی کےلۓ'میلاد'کےجوازپر1کتاب لکھکراس بادشاہ کوپیش کی.تواس نےاس کذاب مولویکو1ھزارپھڈانعام میں دیاتھا
(دول الاسلام، تاریخ_میلاد، فتاوی رشیدیہ، تاریخ ابن خلکان)

*حقیقت-میلاد*
*میسج#21*
جس کذاب مولوی نےمظفرالدین حکمران کوخوشنودی کی خا طرمیلادکےجوازپرکتاب تحریرکرکےپھرانعام حاصل کیا.آؤ!اس مولوی کاکردارپڑھو*حافظ ابن_حجرعسقلانی رح نےلکھا:کہوہ(مولوی)ائمہ دین، اورعلماءسلف کی شان م بیحدگستاخی کرتا.گندی زبان والا، بیوقوف،اورمتکبر،اوردین کےکاموں میں بےپرواہ،وسست تھا.
*ابن_نجارکافرمان:  میں نےسب لوگوں کواسےجھوٹا قراردینےپرمتفق پایا.
(لسان المیزان ج4.س296،و295)

*حقیقت_میلاد*
*میسج#22*
عیدمیلادسب سےپہلےفاطمی(شیعہ) حکمرانوں  نے460 ھجری میں اھلبیت کامنایا. اھلسنۃمیں پہلی بارمظفرالدین کوکری بن اربل نے604ھجری میں منایا. اورلاھورمیں میلادکا پہلاجلوس 5جولائ  1933ء،بمطابق12ربیع الاول1354کونکالاگیا.

*حقیقت_میلاد*
*میسج#23*
احمدرضاخان کےممدوح مولوی عبدالسمیع رامپوری نےکہا:'یہ سامان_فرحت، وسرورکرنا. اوراسکوبھی مخصوص شہر ربیع الاول کےسا تھ، اوراس میں بھی وہی12واں دن میلادشریف کامعین بعدمیں ھوا. یعنےچھٹی صدی کےآخرمیں.. اول یۂعمل ربیع الاول میں تخصیص،اورتعیین کےساتھ 'شہر_موصل' میں ھوا-(انوار_ساطعہ ص131)بڑی عجیب بات ھےکہ آپکو احمدرضاخان کےکتب، اورحالات زندگی م 'جشن_میلاد'منانے کاتصوربھی محسوس نہیں ھوگا

شيخ عبدالقادر جيلانی فرماتےہيں نبی عليہ السلام 10 محرم كوپيدا ہوئے
(غنية الطالبين،
جلد2، صفحہ317،
ناشر: داراحياء التراث العربی بيروت)
احمدرضا بريلوی لكھتاہے: غوث پاک (يعنی شيخ جيلانی) كی مخالفت كرنادين ميں زہر قاتل، دنيا اورآخرت دونوں كی بربادی ہے
(فتاوی رضويہ،
جلد7، صفحہ573،
ناشر: رضافاونڈيشن لاہور)
جولوگ 12ربيع الاول كوميلاد منارہے ہيں وه اپنے امام احمدرضا كےبقول اپنی دنياوآخرت برباد كررہےہيں

*حقیقت_میلاد*
MSG#24: عیدمیلاد منانےکیوجہکیاہے؟علامہ ابن_ جوزی رح کابڑا دلچسپ جواب:جب عیسائ اپنےنبی کی پیدائش کی رات عید_اکبرمناتےھیں.تواہل_ اسلام کواپنی نبی کی تکریم،اورتعظیم اسےزیادہ کرنی چاہئیے.(موروالرومی)مفہوم_حدیث:بیشک تم لوگ پیروی کرنے لگوگےپہلےلوگوں(یہودونصاری)کیبالشت،بالشت.اورہاتھ ہاتھ(قدم بقدم)<بخاری>توثابت ہواکہ"میلاد"مناناعیسائیوں کی"تقلید"کرناہے.ھم سب کواللہ محفوظ رکھے !


حقیقت_میلاد
msg#25:
آپ صہ کی تاریخ ولادت میں اختلاف ہے.اور یہ اختلاف اس بات کی دلیل ھیکہ آپ صہ کا'یوم_ولادت' منانا دین کا جزء، اور ضروری نہیں..پھرجسطرح اللہ نےآپ صہ کی قبرمبارک کو'شرک' سےمحفوظ کرلیا،اسیطرح رب_ذوالجلال نےآپ صہ کی تاریخ ولادت کومخفی رکھکر'بدعات،ورسومات' سےمحفوظ فرمالیا.(وآخردعواناان الحمدللہ رب العالمین)

وفات النبی (صلی الله علیه وسلم)

وفات النبی (صلی الله علیه وسلم
میسج#1
حضرت محمد ص نے وفات سےتقریبا 81 دن پهلےخطبہ حجة الوداع میں ارشادفرمایا
"آج کےدن میں نےتمهارےلیےدین کوکامل کردیاهے اورمیں نے اپنی نعمت تم پرپوری کردی هے"(المائده ٣)
اس تاریخی اور الوداعی اجتماع سےواپسی کےبعدماه صفرکی آخری تاریخ میں علالت کاآغازهوگیا.اس مرض کو "مرض وفات النبی ص" کہتےہیں کہ جس بیماری میں آپ ص کی وفات هوئی.
(جاری)

*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*

وفات النبی (صلی الله علیه وسلم)
میسج#2
ماه صفرکےآخری آیام میں آپ صلی الله علیہ وسلم بهت سخت بیمارهوگئے.سیدناابوسعیدخدری رض فرماتےهیں که"آپ صلی الله علیه وسلم کےسرمبارک پررومال بندھاتھا. میں نےهاتھ لگایاتواسطرح جل رهاتھاکه هاتھ کوبرداشت نه هوتی تھی.مرض کچھ بڑھتاگیا آپ صلی الله علیه وسلم نےپانچ دن تک اس حالت میں بھی ازراه عدل وانصاف برابرایک ایک بیوی کی باری میں اسکےپاس حجره مقدسه میں جاتےرهے.

وفات النبی (صلی الله علیه وسلم)
میسج#3
آپ صلی الله علیہ وسلم کی دلی تمناتھی که آپ ص سیدنا عائشه رض کےگھرقیام فرمائیں لیکن اسکی اجازت ازواج مطهرات سےطلب نہیں فرماتےتھے بلکہ اسکااظہاراسطرح فرماتے کہ کل کس کی باری هے میں کل کس کےگھررہوں گا.ازواج مطہرات نےآپکی مرضی مقدس کوپالیااوربخوشی سیده عائشہ رض کےہاں قیام فرمانےکی اجازت دینےکی عرض کی کہ آپ ص جہاں چاہیں قیام فرمائیں.
(جاری)

*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*

وفات النبی (صلی اللہ علیہ وسلم)
میسج#4
اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےمزاج اقدس پرضعف اس قدر هوگیاتھاکہ خودقدم مبارک سےچل کرحجره عائشہ رض تک تشریف نہ لےجاسکے.سیدنا علی رض اورسیدناعباس رض دونوں نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کےبازو تھامے اوربڑی مشکل سےحجره صدیقہ رض میں لےکرآئے.
(جاری)

*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*

وفات النبی (صلی اللہ علیہ وسلم)
میسج#5
سیدناعائشہ صدیقہ رض فرماتی هیں کہ نبی ص جب بیمارہوتےتھےتویہ دعااپنے هاتھوں پردم کرکےجسم اطهر پرپھیرلیتے.
ترجمہ"اےسب انسانوں کےشفاءدینےوالےرب! شفاعطافرما. توهی شفادینےوالا تیرےعلاوه کوئی شفانہیں.ایسی شفاوصحت عطاکرکہ کوئی بیماری نہ رهے"سیده صدیقه رض فرماتی هیں کہ اس مرتبہ میں نےدعاپڑھی توآپ ص نےهاتھ پیچھےہٹالیےاورفرمایا ترجمه:"اےالله!معافی اوراپنی رفاقت عطافرمادے"
(جاری)

وفات النبی (صلی اللہ علیہ وسلم)
میسج#6
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض دن بہ دن ہرآن شدت اختیارکرتی جاتی تھی اور ضعف بڑھ رہاتھا مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف کےباوجود گیاره دن تک برابرمسجدمیں تشریف لاکرنمازپڑھاتےرہے.سب سےآخری نمازجو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےخودپڑھائی جمعرات کےروز نمازمغرب تھی.جس میں آپ ص نےسورة مرسلات تلاوت فرمائی.

(جاری)

*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*
*سروس لگانےکاطریقہ*
FOLLOW MNTSPAK1
لکھ کر 9900 اور 40404 پربھیج دیں.
شکریہ

وفات النبی (صلی اللہ علیہ وسلم)
میسج#7
عشاء کےوقت جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلی تودریافت فرمایا کیانماز ہوچکی؟
عرض کی گئی کہ سب مسلمان آپ کےمنتظربیٹھےہیں. آپ ص نےپانی بھرواکرغسل فرمایا اورہمت فرماکراٹھےمگرغش آگیا. تھوڑی دیربعدپھرهوش آیاتوپھرفرمایاکیانماز ہوچکی؟
پھرعرض کی گئی کہ سب مسلمان آپ کےانتظارمیں ہیں آپ ص نےپھرغسل فرمایااورنمازکےلئےاٹھناچاهاپھرغش آگیا.تیسری مرتبہ بھی ایساهی هوا.
(جاری)

*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*

وفات النبی (صلی اللہ
علیہ وسلم)
میسج#8
چوتھی مرتبہ
جب ہوش آیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ ابوبکررض کو کہوکہ نمازپڑھائیں. سیده عائشه رضی الله عنہ نےعرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اورکوارشادفرمائیں. سیدناعمررض مضبوط دل والےہیں انہیں حکم دیں کہ نمازپڑھائیں ابوبکررض نہایت نرم دل آدمی ہیں.لیکن آپ ص کےاصراری حکم پرآپ ص کی حیات طیبه کے باقی غالبا تین دنوں میں سیدناابوبکر رض ہی نماز پڑھاتےرهے

وفات النبی (صلی اللہ علیہ وسلم)
میسج#9
امامت کےاصل حقدار سیدناابوبکررضی اللہ عنہ ہی تھے جن کو پیغمبر خدانےخود اپنے حکم سےامامت پرمقررفرمایا. سیدناابوبکررضی اللہ عنہ نےحیات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ستره (17) نمازیں پڑھائیں.
(جاری)

وفات النبی (صلی اللہ علیہ وسلم)میسج#10حضور صلی الله علیه وسلم کےمزاج اقدس میں کچھ سکون هواتو آپ پتھرکےٹپ میں بیٹھ گۓاورسرمبارک پرپانی کی سات مشکیں ڈلوائیں.سیدنا علی رض اور عباس رض کےدرمیان سهاره لیے مسجدمیں تشریف لاۓ. جماعت کھڑی هوچکی تھی.سیدناصدیق رض ظهر کی نمازپڑھارهےتھے.آپ رض نےپیچھےهٹناچاهالیکن حضورصلی الله علیه وسلم نےاشاره فرماکرروک دیااور ابوبکررضی الله عنه کےپهلومیں برابربیٹھ کرنمازاداکی

وفات النبی (صلی اللہ علیہ وسلم)
میسج#11
نماز کےبعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےخطبہ دیا جوآپ صلی الہل علیہ وسلم کی زندگی کاسب سےآخری خطبہ تھا.ارشادفرمایا
"مسلمانو!تم سےپہلے قوم گزرچکی ہےجس نےاپنےانبیاء اورصلحاء کی قبروں کوسجده گاه بنالیاتھا.تم ایسانہ کرنامیری قبرکومیرےبعدپوجاگاه اورسجده گاه نہ بنالینا"
"مسلمانو!وه قوم اللہ کےغضب میں آجاتی هےجواللہ کےنبیوں کی قبروں کوسجده گاه بنالے"(جاری)

*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*

وفات النبی (صلی اللہ علیہ وسلم)
میسج#12
پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا"اللہ تعالی نےاپنےایک بندےکواختیاردیاهےکہ دنیاومافیهما کوقبول کرےیاآخرت کو مگراس نےصرف آخرت ہی کوقبول کرلیاہے"یہ سن کرسیدناصدیق رض رونےلگےاورعرض کی کہ اےالله کےرسول ص همارےماں باپ ہماری جانیں اورمال سب کچھ قربان ہوجائیں"اس رازدارنبوت نےسمجھ لیاتھاکہ وه بنده خود آپ ص کی ذات اقدس مرادهےکیونکہ سیدناصدیق اکبررض رمزشناس نبوت تھے.

احمدرضا خان بریلوی

1/ اعلی حضرت کی حقیقت:احمدرضاکو دیکھنے سے صحابہ کی زیارت کاشوق کم ہوگیا (وصایاشریف ص 21 حسنین رضابریلوی)(اعلی حضرت کی خودفریبی)بحمداللہ اگرمیرے دل کے 2 ٹکڑے کردیۓجائیں توخداکی قسم ایک پرلکھاہوگا لاالہ الا اللہ اور دوسرے پرمحمدرسول اللہ (ملفوظات_اعلی حضرت حصہ 2 ص 67)(احمدرضاخداکا شاگردتھا)مولانابریلوی تلمیذ_رحمان تھے انہوں نےکسی سے شرف_تلمیذحاصل نہیں کیا (حیات_اعلی حضرت ص 53)


2/ اعلی حضرت کی حقیقت:شجرہ نسب احمدرضا بن نقی علی بن رضاعلی بن کاظم علی (حیات_اعلی حضرت ص 2)(شکل) ابتدائی عمرمیں آپکا رنگ کہراگندمی تھا لیکن مسلسل محنت ہاۓشاقہ نے آپکی رنگت کی آب وتاب ختم کردی تھی (اعلی حضرت ص 30 نسیم بستوی)اعلی حضرت کی دائیں آنکھ میں نقص تھااس میں تکلیف رھتی تھی اورپانی اترنے سے بےنور ہوگئی تھی (ملفوظات ص 16 اور 17)مجھے نوعمری میں آشوب_چشم اکثرہوجاتاتھا اور بوجہ حدت مذاج بہت تکلیف دیتاتھا.


3/ اعلیحضرت کی حقیقت:اعلی حضرت بہت تیزمزاج تھے (انوار_رضا ص 358)اعلیحضرت نے مولاناعبدالحق خیرآبادی سے منطقی علوم سیکھناچاہا مگروہ پڑھانے پرراضی نہ ہوۓ وجہ بیان کی آلہ حضرت مخالفین کےخلاف نہایت سخت زبان استعمال کرنے کےعادی ہیں (حیات_اعلی حضرت ص 23 مصنف ظفرالدین)مدرسہ مصباح التہذیب جوانکے والدنے بنوایاتھا وہ بھی انکی ترش روئی اور مسلمانوں کی تکفیرکی وجہ سے ہاتھ سے نکل گیا.(حیات_اعلی حضرت ص 211)


4/ اعلی حضرت کیف حقیقت:احمدرضا کے تعلقاتبچپن میں صرف ایک بڑا کرتا پہنے باہر تشریف لاۓ سامنے سے چند طوائف گزریں آپ نے کرتے کو سامنے سے اٹھاکر چہرہ مبارک چھپالیا یہ کیفیت دیکھ کر ایک طوائف بول اٹھی واہ صاحب! منہ توچھپالیا اور سترکھول دیا آپ نے برجستہ جواب دیا جب نظر بہکتی ہے تب دل بہکتاہے اور جب دل بہکتاہے تب ستر بہکتاہے.(حیات_اعلی حضرت ج 1 ص 23)



5/ اعلی حضرت کی حقیقت:(اعلی حضرت کاتقوی)کہتاہے میں نے خود دیکھا گاؤں میں ایک لڑکی 18 یا 20 برس کی تھی ماں اسکی ضعیفہ تھی اسکا دودو چھڑایا نہ گیاتھا ماں ہرچند منع کرتی مگروہ زور آورتھی ماں کو بچھاڑدیتی اور سینے پرچڑھ کر دودھ پینے لگتی.(ملفوظات_اعلی حضرت جلد 3 صفحہ 68 اکبربک کارنرلاہور)


6/ اعلی حضرت کی   حقیقت: (اعلی حضرت   کاصحابہ سےاختلاف)   مجددبرحق امام احمد رضاقادری حنفی نے اکابرصحابہ کرام رض اورائمئہ مجتھدین امام_اعظم ابوحنیفہ امام مالک اور امام احمدبن جنبل رحمہ اللہ علیھم کے مؤقف سے اختلاف فرمایاہے، (حقائق شرح مسلم ودقائق تبیان القرآن ص 172   اور 173 اسمعیل قادری)بریلوی مولوی نے خود کہاکہ احمدرضانے اکابرصحابہ سے اختلاف کیا..


=7/آخری: اعلی حضرت کی حقیقت: احمدرضاخان بریلوی نسیان میں بھی مبتلاتھے انکی یاداشت کمزورتھی 1 دن انکوعینک نہ ملی کافی دیرپریشان رہے اچانک انکاہاتھ ماتھے پرلگا توعینک ناک پرآگری تب پتہ چلاکہ عینک تو ماتھے پرتھی.(حیات_اعلی حضرت ص 24) بہت غصے میں آجاتےتھے اور زبان کے مسئلےمیں بہت غیرمحتاط تھے. (فاضل بریلوی ص 199 مصنف ڈاکٹرمسعوداحمد) نوٹ: یہ تمام حوالہ جات بریلویوں کی کتب کےہیں، گویاگھرکو آگ لگ گئ گھرکے چراغ سے.


=اعلی حضرت احمدرضا کاحافظہ: اعلی حضرت کی زبان اور قلم شریف نقطہ برابر خطا (غلطی) کرے خدانے اسکو ناممکن بنادیا.(الشاہ احمدرضا ص 179) جبکہ مفتی احمدیار نعیمی لکھتاہیکہ انبیاء سے نسیانا' (بھول کر) گناہ بھی صادر ہوسکتے ہیں (جاءالحق صفحہ 340 بحث عصمت انبیاء، اشاعت 2009 قادری پبلشرز) اب بریلویوں کے نزدیک احمدرضا کامقام انبیاء سےبھی بڑھ کرہے احمدرضا کو معصوم سمجھتے ہیں اور انبیاء کوگناہ گار فیصلہ آپ پر؟

حقیقت کربلا

1/ 'حقیقت_کربلا!یذیدکےخلیفہ بننےکےبعدکوفیوں نےحضرت حسین رضی اللہ عنہ کوبےشمارخط لکھ کےدعوت دی کہ ھم آپکو اپناامام اور مقتدامانتےھیں، آپ کوفہ تشریف لائیں اور کوفہ کے 60 شیعہ آپ رض کےپاس آۓاور آپ رض کو کوفہ جانےکی دعوت دی، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے تحقیق کیلۓ اپنےچچازادبھائی مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کوکوفہ بھیجااور پھراہلبیت کولیکر ان 60 شیعوں کیساتھ کوفہ روانہ ہے،


2/ حقیقت_کربلا!!!کوفہ جاتےہوۓراستے میںحضرت حسین رض کومسلم بن عقیل رض کےقتل ہونےاور کوفیوں کی غداری کی خبرملی توآپ رض نےواپسی کاارادہ کیامگرمسلم بن عقیل کےبھائیوں نےکہاکہ کوفہ جاکے ھم اپنےبھائی مسلم کابدلہ لینگے، شیعہ بک جلاءالعیون جلد 1 صفحہ 263/ ناسخ التواریخ صفحہ 157/ طبری جلد6 صفحہ 211/ چنانچہ آپ رض مسلم بن عقیل کابدلہ لینے کیلۓدوبارہ کوفہ روانہ ہوۓ، جاری ہےr


3/ حقیقت_کربلا!دوبارہ کوفہ جاتےہوۓ راستےمیں 'القرعہ نامی' مقام پہ حضرت حسین رض کویذید کاایک فوجی دستہ ملا جسکے سپہ سالارحضرت سعدبن ابی وقاص رض کے بیٹے عمربن سعدتھے، شیعہ کتاب الارشاد صفحہ 437/ بحارالانوار جلد صفحہ 446/ جن کوفی (شیعوں) نے آپ رض کوخط لکھ کےکوفہ آنے کی دعوت دی تھی وہ اسی فوجی دستےمیں موجودتھے، شیعہ کتاب ناسخ التواریخ صفحہ 159/ خلاصۃالمصائب صفحہ 115/ جاری


4/ حقیقت_کربلا!حضرت حسین رضی اللہ عنہ نےجب یذیدکےفوجی دستےمیںموجود کوفیوں کوانکےاپنے لکھۓ ہوۓخطوط دکھاۓتووہ مکرگۓآپ رضی اللہ عنہ نےفوجی دستےکےسامنے 3 شرائط پیش کیں،1:مجھےواپس مکہ جانےدو2:جھادکیلۓ کسی اسلامی سرحدپہ بھیجدو (تاکہ میں جاکر کافروں سےجہادکروں)3:یاپھریذیدکےپاس لےچلو تاکہ میں یذیدکی بیعت کرلوں (شیعہ بک الشافی ج1 ص471/ طبری ج4 ص313/ سنی بک البدایہ ج8 ص170/ تاریخ_کامل ج4 ص24/جاری


5/ حقیقت_کربلا!حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی تیسری شرط (یذیدکےپاس جاکربیعت کرنے) کوفوجی دستےکےسپہ سالارنےمنظورکرلیا، شیعہ کتاب (الامامت والسیاست ج 2 ص6) اورآپ رضی اللہ عنہ فوجی دستےکےساتھ دمشق کی طرف روانہ ہوۓ، 10 محرم کو آپ رضی اللہ عنہ میدان_کربلاپہنچے، آپ رضی اللہ عنہ کےقافلے خواتین بھی تھیں اسلۓفوجی دستےنے حسینی قافلےسے کچھ فاصلے پڑاؤڈالا،


7/ حقیقت_کربلا!جب کوفیوں کےحضرت حسین رضی اللہ عنہ کےقافلے پرحملے کاعلم یذیدکے فوجی دستےکو ھواتو وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کےساتھیوں کی مددکیلۓ حسینی قافلےکی طرف دوڑے مگران کے پہنچنے سےپھلے ہی حضرت حسین رضی اللہ عنہ غدارکوفی شیعوں کےہاتھوں شھیدہوچکے تھے، چنانچہ فوجی دستے نےحضرت حسین رضی اللہ عنہ کےقاتل تمام کوفیوں کواسی جگہ قتل کردیاگیا.(واقعہ کربلا کی حقیقت صفحہ 26)


8/ حقیقت_کربلا!آج کل یہ بیان کیاجاتا ہیکہ *یذیدنے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کےمقابلے کیلۓ بھت بڑالشکربھیجا، *اہلبیت پر پانی بندھوا، *عورتوں کی بےپردگی ہوئی، *خون کی بارش ہوئی، *حسین رضی اللہ عنہ کاسرمبارک یذید کےسامنے لایاگیا، وغیرہ، یہ سب ابومخطف لوط بن یحیی نامی شخص کی بنائی ہوئی جھوٹی کہانیاں ہیں، یہ شخص متعصب شیعہ اور جھوٹاتھا، (میذان الاعتدال، البدایہ ج8 ص202) جاری


9/ حقیقت_کربلا!س: کیاحضرت حسین رض یذیدکےخلاف جنگ کیلۓ کوفہ گۓ؟ ج>1: اب_عمر، ابن_عباس، ابن_زبیر، ابوسعیدخذری جابربن عبداللہ آپکےبھائی محمدبن علی اورباقی صحابہ رض نےحسین رض کوکوفہ جانے سےروکاتھا. (سنی بک البدایہ ج8 ص163) تاریخ_اسلام ص614) اگرآپ رض جنگ کرنے جارہے ہوتے توصحابہ آپ کو روکنے کی بجاۓ خودساتھ جاتے (یذیدوہ شخص ہے جس کےخلاف ابن_سباکی نسل یہودکا جھوٹا پروپیگنڈہ اتنازیادہ ہےکہ اھلسنت کےدماغ ماؤف ہوچکے.


11/ حقیقت_کربلا!سوال: کیاحضرت حسین رضی اللہ عنہ یذید کیخلاف جنگ کیلۓ کوفہ روانہ ہوۓ؟جواب: 3> تمام شیعہ سنی کتابوں میں یہ بات لکھی ہیکہ کوفہ جاتے ہوۓ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کیساتھ قافلے میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، اگرحضرت حسین رضی اللہ عنہ یذید کیخلاف جنگ کرنے جارہے ہوتے تواھل_بیت کی خواتین اور بچوں کواپنے ساتھ لیکرنہ جاتے، اصل میں آپ رضی اللہ عنہ کوفیوں کی دعوت پہ انکے مہمان بن کے جارھےتھے... جاری

مرکزی اشاعت گجرات نیوز

مرکزی اشاعت التوحیدوالسنۃ کی
تیزترین فری اسلامی موبائل میسج سروس
*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*
خودبھی لگائیں اوردوسروں کوبھی لگادیں.
لگانے کاطریقہ
FOLLOW MNTSPAK1
لکھ کر40404اور9900پر سینڈ کریں جواب آنے پراپنانام انگلش میں سینڈکردیں.
اپنے میسج شائع کرانے کیلۓ اس نمبرپرمیسج سینڈکردیں.
شکریه
03035372486

#2
*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*
قرآن وحدیث کےمطابق صحیح عقائد واعمال. اسلامی تعلیمات ومعلومات. جماعتی خبریں. پروگرام وغیره کے مفت میسج حاصل کرنے کےلیے
FOLLOW MNTSPAK1
لکھ کر 9900 اور 40404 پرسینڈکردیں جواب آنےپراپنانام سینڈکریں. اپنے تمام دوست احباب کو یہ سروس ضرورلگواکر دیں. شکریہ


#3
*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*
قرآن وحدیث کےمطابق صحیح عقائد واعمال. اسلامی تعلیمات ومعلومات. جماعتی خبریں. پروگرام وغیره کے میسج حاصل کریں
وہ بھی بالکل مفت
بہلی بارسروس لگانے کی چارجزصرف 1روپیہ22پیسے ہیں سروس آن کرنےکاطریقہ
FOLLOW MNTSPAK1
لکھ کر 9900 اور 40404 پرسینڈکردیں.
جواب آنےپراپنانام سینڈکریں.
یہ میسج اپنے تمام
ساتھیوں کوضرور بھیجیں.

786 کیاهے

🚨🔥 786 كيا هے؟ 🔥🚨

📌عام طور پر خطوط، دستاویزات اور تحریروں وغیرہ میں بسم اللہ کے بجائے 786 لکھ دیا جاتا ہے. کہا یہ جاتا ہے کہ ان کاغذات کے زمین پر گرنے سے بسم اللہ کے پاکیزہ حروف کی بے ادبی ہوتی ہے. ان کو بےادبی سے بچانے کیلئے 786 لکھ دیا جاتا ہے
📌جبکہ اسلامی تعلیم واضح طور پر یہ ہے کہ ہر کام اللہ کے نام سے شروع کرنا چاہیے. خط یا کسی بھی تحریر سے پہلے بطور بسم اللہ کے 786 لکھنا ایک گمراہ کن بات ہے کیونکہ 786 لکھ کر تحریر شروع کرنے کا یہ طریقہ ہم کو قرآن و سنت میں کہیں بھی نہیں ملتا
💎کوئی بھی نیک کام شروع کرنے سے پہلے زبان سے "بسم الله الرحمن الرحیم" ادا کرنا یا لکھنا بہت ہی اچھا اور ثواب کا کام ہے. اللہ تعالی نے قرآن حکیم کو بھی "بسم الله الرحمن الرحیم" سے ہی شروع فرمایا. جو کام اللہ تعالٰی کے نام سے شروع نہ کیا جائے اس میں برکت نہیں ہوتی
📌یہ بات قابلِ غور ہے کہ کیا اس طرح اللہ تعالٰی کا نام لینے کے بجائے 786 لکھ دینا صحیح ہے..؟
🌑فرض کیجیے کسی کے نام کے اعداد کا مجموعہ 420 ہو اور کوئی اسے نام کے بجائے مسٹر 420 کہہ کر پکارے تو اس کا ردِ عمل کیا ہو گا..؟ اگر کسی کا نام انور ہے تو اس کو 257 صاحب کہہ کر نہیں بلایا جاتا. اگر کسی کو مولانا صاحب کی بجائے 128 صاحب کہہ کر بلایا جائے تو یقیناً وہ ناراض ہو جائیں گے. پھر کیا وجہ ہے کہ اللہ کے مقدس كلام کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے؟ اسی لئے بسم اللہ کی بجائے 786 کا استعمال کسی طرح بھی پسندیدہ نہیں
پھر آخر 786 ہے کیا..؟ ❗
جب ہم علم الاعداد پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں انتہائی خطرناک صورتِ حال نظر آتی ہے. آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ 786 ہندؤں کے بھگوان ہری کرشنا کے نام کے حروف کا مجموعہ ہے. حروفِ ابجد کے حساب سے اُسی کے یہ اعداد نکلتے ہیں. برصغیر پاک و ہند کے مسلمان سیکڑوں برس تک ہندؤں کے ساتھ اکٹھے رہے ہیں.. وہ 786 استعمال کرتے ہونگے. اس کی تشریح انہوں نے مسلمانوں کے سامنے غلط انداز میں کی ہو گی اور انہوں نے اس کو صحیح سمجھ کر 786 کا استعمال شروع کر دیا.
📌بسم اللہ کے اعداد کا مجموعہ کسی بھی صورت میں 786 نہیں بنتا. بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے 786 نہیں بلکہ 787 اعداد ہوتے ہیں اور ہری کرشنا کے 786 بنتے ہیں
تفصیلات ملاحظه فرمائيں❗
ب س م ا ل ل ہ (بسم اللہ)
2+60+40+1+30+30+5 (168)
ا ل ر ح م ا ن (الرحمٰن)
1+30+200+8+40+1+50 (330)
ا ل ر ح ی م (الرحیم)
1+30+200+8+10+40 (289)
787=168+330+289
جبکہ "ہری کرشنا" اور روی شنکر کا مجموعی نمبر 786 بنتا ہے تفصیلات حسب ذیل ہیں❗
ہ ر ی ک ر ش ن ا (ہری کرشنا)
5+200+10+20+200+300+50+1=786
ر و ی ش ن ک ر (روی شنکر)
200+6+10+300+50+20+200=786
📌بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے اعداد 786 ہی ہیں تو بھی بسم اللہ کیلئے اس طرح کے اعداد کا استعمال درحقیقت اللہ کی ناراضگی کو دعوت دینے کے مترادف ہے. ذرا سوچئے کہ کیا قرآن کریم علمِ ہندسہ یا جیومیٹری کی کتاب ہے..؟؟؟ کیا اس کا نزول اسی لئے ہوا تھا کہ اسے اعداد میں تبدیل کیا جائے..؟؟؟ نہیں، ہرگز نہیں
💎بلکہ یہ عمل کی کتاب ہے. اس لئے ان اعداد کے استعمال سے مکمل طور پر اجتناب کیا جائے. بسم اللہ لکھ دیا جائے یا کاغذ پر کچھ بھی نہ لکھا جائے "زبان سے بسم اللہ پڑھ لینا کافی ہے..!!" (إن شاء الله)
💎💠الدين النصيحة💠💎

علامہ احمد سعید خان ملتانی

مورخہ1983 ڈلوال چکوال میں2روزہ جلسہ سے مولانا احسان الحق، مولانا ضیاء القادری،مولاناقاضی عصمت اللہ، علامہ نیلوی صاحب، مولانا بشیر احمد ، ،مولانا یونس نعمانی پیر سید عنائت اللہ شاہ بخاری صاحب اور علامہ احمد سعید خان تشریف لاۓ آخرمیںپیر بخاری نےفرمایااب وہ ھستی تشریف لانے والی ھےجوعلم کے سمندر اور عمل کےپہاڑ ھیں، علامہ صاحب نے 3 گھنٹے خطبہ اورتقریر فرمائ . ھمارےبعد اندھیرارھےگامحفل  میں بہت چراغ جلاؤگے روشنی کیلۓ

#2
علامہ  رح"نہی بھلنی تیڈی الوداعی

اکھیں رنیاں جس دم تیڈی یادآی؛

تیڈے پیار اخلاق جوڑاںلکھاںنوں

تے مسلک حقیقی سکھایا اساں نوں

ھووی دن قیامت نوں عزت سوائ
2
تیڈی قبر دی مٹی توںخوشبو پئ آوے
تے مشرک پلیتاں نوںرب سایئں وکھاوے

ھو گئ قبر چٹاں دی لوگو تباہۂ
4
میں وج گج کے آکھاںجولکھدا تعویز اے
ایہ رب توں کردا پیا نا امید اے

اس دے خلاف ہے آواز اٹھائ
5
مردے نہی سندے ایہ نعرہ لیساں

تے قرآن حدیثاں میں پڑھ کے سنیساں
حیاتیاں دی کرساں میں جا جا تباہی

اکھیں رنیاں جس دم تیڈی یاد آی



امام انقلاب رح ' کےنام,,, وہ جس کانام نامی تھا
احمد سعید خان
وہ کہ ایمان پرھوتاتھاجس کا اندازبیاں ,, دعوت توحید حق کا جوعلمبردارتھا
جس کی حق گوئ وبےباکی سے واقف ہےجہاں ,, شرک وبدعت کی تردید جس کا کام تھا
توحیدوسنت کی تبلیغ جس کا نشاں تھا ,, ھاۓ اجل ! تجھ سے یہ کیا نادانی ھوئ
پھول بھی وہ توڑا سےچمن میں ویرانی ھوئ.
(2 مئی یوم وفات علامہ احمدسعیدخان ملتانی)
FOLLOW MNTSPAK1
*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*

مکمل و مدلل "مسائل نماز"

انشاء الله اب فیس بک پرمرکزی اشاعت التوحیدوالسنه کےپیج پر
fb.com/MNTSPK
اور
whatsapp
پر

مکمل و مدلل "مسائل نماز"

کےموضوع پر

قرآن وحدیث کی روشنی میں
مکمل حواله کے ساتھ میسج شائع کئے جائیں گے.
تمام دوستوں سے گزارش هے که ان میسجز کو زیاده سے زیاده پهیلائیں
جزاک الله خیر

"نماز کیا هے"
نماز ایک ایسی پسندیده عبادت ہےجس سےکسی نبی کی شریعت خالی نہیں.
حضرت آدم علیہ السلام سے لےکر تمام رسولوں کی امت پر نماز فرض تھی ، ہاں اسکی کیفیت اور تعینات میں تغیر (تبدیلی) هوتارها.
ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی امت پر ابتداۓ رسالت میں دو وقت کی نماز فرض تھی ، ایک قبل آفتاب نکلنے کے اور دوسری قبل آفتاب ڈوبنے کے.
ہجرت سےڈیڑھ برس پہلے معراج کےموقع پرنماز ان پانچ (5) وقتوں پرفرض کی گئی.
*فجر
*ظہر
*عصر
*مغرب
*عشاء

میسج#2
نماز اسلام کا رکن اعظم ہے، بلکہ اگریوں کہا جاۓکہ اسلام کا دارومدار اسی پر ہے تب بھی مبالغہ نہیں، ہرمسلمان عاقل، بالغ پر ہرروز پانچ وقت نماز فرض عین هے.
امیر ہو یافقیر، تندرست ہویامریض، مسافر ہویامقیم، یہاں تک کہ دشمن کےمقابلہ میں جب لڑائی کی آگ بھڑک رہی ہو اس وقت بھی اسکا چھوڑناجائز نہیں ہے.
جوشخص نماز کی فرضیت کاانکارکرےوه یقینا کافر ہے.

میسج#3
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےجلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نمازچھوڑنےوالے کو کافر فرماتے ہیں.
امیر المومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا بھی یہی قول ہے.
اور امام احمد رحمہ اللہ کابھی یہی مسلک ہے.
امام شافعی رحمہ اللہ اسکےقتل کاحکم دیتےہیں.

اورامام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ اگرچہ اسکے کفرکےقائل نہیں مگرانکے نزدیک بھی نماز چھوڑنے والے کےلئے سخت تعزیر ہے.

میسج#4
"نماز کی فضیلت"
نبی صلی اللہ علیه وسلم نےفرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پرہے.
1: توحیداور رسالت کا اقرارکرنا.
2: نماز پڑھنا.
3: زکوة دینا.
4: رمضان المبارک کےروزے رکھنا.
5: بشرط قدرت حج کرنا.
(بخاری و مسلم)

*حدیث*
"ایمان اورکفرکے درمیان میں نماز حد فاصل ہے".
(مسلم)

*حدیث*
"جس نےجان بوجھ کرنماز چھوڑ دی وه کافر ہوگیا"
(مشکوة)

میسج#5
"جماعت کےساتھ نمازپڑھنےکی فضیلت"
اسلام میں نماز باجماعت پڑھنےکا حکم ہے.
نبی صلی علیہ وسلم نےترغیب فرمائی ہےکہ
"یعنی جماعت کےساتھ نماز پڑھنےمیں الگ الگ نماز پڑھنےسے سر درجےزیاده فضیلت ہے"

جماعت کےساتھ اکٹھا ہوکر نماز پڑھنے سےاس امرکااظہار ہےکہ ان کےجداجدا قلوب باہم ایک دوسرے کےقریب ہیں اور کینہ وحسد سےدور ہیں.
FOLLOW MNTSPAK1 Send to 40404 & 9900

مسئلہ:
دورانِ نمازموبائل فون کی گھنٹی بجنےلگےتواسکےکسی بٹن کو دباکراسےبند کردیاجائے،
اگردائیں جیب میں موبائل ہوتو دائیں ہاتھ سےاوراگر بائیں جیب میں ہوتو بائیں ہاتھ سےبندکیاجائے،
اس طرح کرنےسےعمل کثیرلازم نہیں آتا اور نہ ہی نماز ٹوٹتی ہے،
اگر 1 رکن میں 3 بار یہ عمل دہرایا گیاتو اس سےنمازفاسد ہوجائے گی
(فتاوی بینات،
جلد 2، صفحہ 406،

میسج#6
"نماز صحیح ہونےکی شرائط"
*پہلی شرط: (طہارت)
نمازپڑھنے والےکےجسم ، لباس اور نمازپڑھنے کی جگہ کونجاست حقیقیہ سےپاک ہونا چاهیے.

"نماز پڑھنے کی جگہ سےمراد جہاں نماز پڑھنےوالےکے پاؤں رہتے هوں. اور سجده کرنےکی حالت میں جہاں اسکے گھٹنے اور ہاتھ اور پیشانی اور ناک رہتی ہو"
(درمختار)

مسئلہ
"اگرکسی ناپاک جگہ پرکوئی کپڑا بچھاکر نماز پڑھی جاۓ تواس میں شرط ہے کہ وه کپڑا اس قدرباریک نہ ہوکہ اسکے نیچےکی چیز صاف طورپراس سے نظرآۓ"
(بحرالرئق، شرح وقایہ، علم الفقہ جلد٢ ص ٢٤  و ہدایہ جلداول ص ٥٨ وشرح نقایہ جلداول ص ٦٣ وکبیری ص ١٧٧)
FOLLOW MNTSPAK1 Send to 40404 & 9900


میسج#6
"جماعت کابیان اورفضیلت"
جماعت کم سےکم دوآدمیوں کےساتھ مل کرنماز پڑھنےکوکہتے ہیں.

*حدیث*
"جماعت کی نماز تنہا نمازسےستائیس درجےزیاده ثواب رکھتی ہے" (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
*حدیث*
"جتناوقت نماز کےانتظارمیں گزرتاہے وه سب نماز میں شمار ہوتاهے"
(صحیح بخاری)

*حدیث*
"جماعت ترک کرناچھوڑ دو ورنہ الله تعالی دلوں پرمہر لگادےگا اورتم ان میں سے ہوجاؤگے جن کوالله تعالی نےغافل قراردیا ہے"
(ابن ماجہ مصری ص 260 جلداول)


"کعبہ کےاندراوراسکی سطح پرنمازپڑھناقطعا صحیح ہے،البتہ کعبہ کی چھت پرنمازپڑھنامکروه هےکیونکہ اس میں بےادبی ہے"
(کتاب الفقہ ص 326 جلداول)


کیسی ٹوپی سےنماز پڑھناچاہیے.
*مسئلہ*
جس ٹوپی کوپہن کرآدمی شرفاء کی محفل مین جاسکے، اسکےساتھ نماز پڑھنااورپڑھاناجائز ہے.

*مسئلہ*
بغیرٹوپی کےبرہنہ سر اگرکاہلی یالاپرواہی سے نمازپڑھے گاتومکروه (تنزیہی هوگی، اگرٹوپی میسرنہ آۓ یا عجزوانکساری، نیازمندی سےپڑھےگاتودرست ہوگی.
(عالمگیری ص105 جلداول)
(بہشتی زیور ص 66 جلداول)


*اگرٹوپی گرجاۓ توکیاکیاجاۓ*
"نماز میں قیام یارکوع کی حالت میں گری ہوئی ٹوپی اٹھاکرپہننا جائزنہیں ہے، عمل کثیرشمار ہوگاجسکی وجہ سےنماز ٹوٹ جاۓ گی. البتہ سجده کی حالت میں سرکےسامنے گری ہوئی ٹوپی عمل قلیل کےساتھ مثلا ایک ہاتھ سےلےکرپہن لی تواجازت ہےبلکہ افضل ہے، اس سےنماز میں خرابی نہیں آۓ گی"
(فتاوی رحیمیہ ص 378 جلد4, شامی ص600 جلد1, کبیری ص419)

پیرطریقت سیدعنایت الله شاه بخاری رح

حالات زندگی
میسج#1
پیرطریقت سیدعنایت الله شاه بخاری رح
1915ء وادی کشمیرکے علاقه گوئل میں پیداهوۓ.
والدکانام "سیدجلال الدین بخاری رح"
انہوں نےکشمیرسے ہجرت کرکے
"دولت نگر"ضلع گجرات میں رہائش اختیارکرلی.
سیدعنایت اللہ شاه ص نےابتدائی کتب قاعده، قرآن پاک، فارسی اورصرف ونحو کی ابتدائی کتابیں اپنےوالدماجد سےپڑھیں.
آپ دنیاوی تعلیم کےدرجہ نہم میں تھے.کہ والدکاانتقال ہوگیا. جس سےتعلیم کاسلسلہ دنیاسےدین کی طرف منتقل ہوگیا.

*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*
*سروس لگانےکاطریقہ*
FOLLOW MNTSPAK1
لکھ کر 9900 اور 40404 پربھیج دیں.
شکریہ

حالات زندگی
میسج#2
پیرطریقت سیدعنایت الله شاه بخاری رح
آپ کےاساتذه میں مولانا صوفی عبدالرحمن گجراتی رح، حضرت باباغلام رسول رح انہی والے، مولاناشیخ محمدعبداللہ رح (ملکہ تحصیل کھاریاں)، مولانامفتی کفایت الله دہلوی رح، مولانامفتی سیدمہدی حسین رح، قاری سیدابراہیم رح، علامہ سیدانورشاه کشمری رح، مولانا حسین علی رح واں بھچراں، مولانا احمدعلی لاہوری رح
جیسے اساطین علم دین شامل ہیں.

*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*
*سروس لگانےکاطریقہ*
FOLLOW MNTSPAK1
لکھ کر 9900 اور 40404 پربھیج دیں.
شکریہ

حالات زندگی
میسج#3
پیرطریقت سیدعنایت الله شاه بخاری رح
تعلیم سےفراغت کےبعد حضرت شاه صاحب رح کچھ عرصہ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل، دولت نگر اور گجرات کےمدارس میں حدیث، فقہ، تفسیر، علم معانی اور علم نحو کی کتابیں پڑھاتے رہے.
زمانہ طالب علمی میں آپ نےحضرت میاں شیرمحمد شرقپوری رح کے ہاتھ پربیعت کی.
گجرات میں درس و تدریس کےدوران ہی آپکی خطابت کاآغاز ہوا.
(جاری)

حالات زندگی
میسج#4
پیرطریقت سیدعنایت الله شاه بخاری رح
قیام پاکستان سےپہلے آپ نے مجلس احراراسلام اور جمیعت علماۓ ہند کےممبر کی حثییت سےآزادی وطن کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا. اور أزادی کی خاطر 3سال تک پس دیوار زندان رہے.
آپ رح مجلس احرارکے شعبہ تبلیغ کےصوبائی صدر بھی رہے.
اہل بدعت کےعقائدواعمال کی تردیدو مذمت انکاخاص مشن تھا.
چناچہ ان سےکئی مناظرے بھی کیے.

1* شرک کےدو بنیادی اور بڑے دروازےہیں. ایک یہ کہ انبیاء اور اولیاء ہمارے حالات سےواقف ہیں اور دوسرا ہماری التجائیں سن لیتےہیں، اوراللہ سےہمارے کام کروادیتے ہیں.
2* نبی ص منزل وحدت کےسب سےبڑھے جده شناس اور رہبرہیں.
3* حضور ص خالی بشر ہوکربھی ساری مخلوق کےسردار ہیں، نوریوں کے ناریوں کے، انسانوں کے، بنیوں اور ولیوں کے سب کےسردارہیں.

فرمان: *پیرطریقت رہبر شریعت سیدعنایت اللہ شاه بخاری رح*

"لاالہ الا اللہ" صرف ایک کلمہ ہی نہیں. پورا نظام ہے، ایک مکمل قانون اور ضابطہ ہے، یہ قرآن پاک کادعوی ہےاور سارا قرآن اسکی تشریخ وتفسیر ہے.

فرمان: *پیرطریقت رہبر شریعت سیدعنایت اللہ شاه بخاری رح*

"جھوٹےاور کذاب راویوں نے قوم کی توجہ قرآن پاک سے ہٹانے کےلیے اور پیغمبر ص کی سنت وسیرت سے ہٹانے کے لیے پیغمبر ص ہی کے نام پرجھوٹی روایتیں خود گھڑیں، مقصد انکا یہ تھاکہ خود نبی ص قرآن پاک کے خلاف باتیں کرتےتھے، اورقرآن کے خلاف عمل کرتے تھے.
لوگو سن لو! جس شخص نے ان کذاب راویوں پر اعتماد کرکے اپنا عقیده بنایا ہے، اسکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں"

فرمان: *پیرطریقت رہبر شریعت سیدعنایت اللہ شاه بخاری رح*

"بدعت وقتی اور علاقائی ہوتی ہے، جبکہ سنت ابدی اور عالمگیر ہوتی ہے، دنیاکے کسی کونے میں چلے جاؤ سنت ایک ہی جیسی ہوگی، جبکہ بدعات ہر علاقہ کی مختلف ہوں گی، ہمارے ہاں کے عشاق کو لاؤڈ سپیکر کی موجودگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا عشق ہے، مگر اسکی عدم موجودگی میں عشق ختم ہوجاتا ہے. بدعات اور جھوٹ ایسا ہی ہوتاہے"

فرمان: *پیرطریقت رہبر شریعت سیدعنایت اللہ شاه بخاری رح*

"دوسرے تو جہاں ان کا جی چاہے ٹکریں مارتےپھریں، مجھے تو امام اعظم ابوحنیفہ رح کی فقہ اور انکے اجتہاد پرکامل یقین واعتماد ہے، اور میں (علی وجہ البصیرت) کہتا ہوں کہ صحابہ کرام رض کے بعد امام ابوحنیفہ رح سب سے بڑے مسلمان، سب سے بڑے عالم اور فقیہ اور اللہ تعالی کے نیک اور سچے ولی تھے"

فرمان: *پیرطریقت رہبر شریعت سیدعنایت اللہ شاه بخاری رح*

*مرکزی اشاعت گجرات نیوز*
*سروس لگانےکاطریقہ*
FOLLOW MNTSPAK1
لکھ کر 9900 اور 40404 پربھیج دیں.
شکریہ

محمدحسین شاہ نیلوی رح

18فروری2006 یوم_شہادت شیخ التفسیروالحدیث،مفتی سیدمحمدحسین شاہ نیلوی<رحمۃ اللہ علیہ>
آپکی شہادت ایساعلمی خلاہےجوصدیوں پرنه هوسکےگا
حضرت نیلوی ص 1922نیلہ ضلع چکوال میںپیداہوۓابتدائ تعلیم کےمختلف مراحل سےگزرکرجامع المنقول والمعقول غلام رسول المعروف باباانہی والا
ان سےتحصیل علم کہ بعدمفتی کفایت اللہ دہلوی رح،کےہاں پانی پت میں دورہ حدیث کیا پہرتفسیرالقرآن رئیس المفسرین مولناحسین الوانی رح،سےپڑھی،
دہلوی رح،کہ ہاں جامعہ امینیہ میں ابتداءتدریس شروع کی،پہرضیاءالعلوم سرگودھامیں امیربندیالوی رح،کےہاں بحثیت شیح الحدیث کےفرائض سرانجام دیتےرہے.
حضرت نیلوی رح،ہرسال دورہ تفسیربہی پڑھاتےرہے فرق باطلہ کیساتھ متعددکامیاب مناظرے بہی کیۓتصنیف وتالیف کےمیدان میں بہی کسی سےکم نہ تہے.
حضرت صاحب رح،کی تمام کتب جوکہ تشنگان_علوم دینیۂ کیلیۓعقائدونظریات میںانتہائ مفیدہیں. حضرت،نےشان اہلبیت اورنام نہاداہلبیت کےردمیں کتاب لکہی
جس نےدشمنان اہلبیت کےایوانوں میں لرزابرپا کردیاجسکی بدولت مقدمہ بنا،گرفتاری ہوئ کچھ عرصہ سرگودھاجیل گزارنےکےبعداڈیالہ جیل منتقل ہوۓ.
جیل میں بہی لوگوں کوخوب قرآن سکہایا بالآخر18فروری کو اڈیالہ جیل میں ہی دار_فانی سےہمیشہ کیلیۓچمکتاستارہ، غروب ہوگیا.
اناللہ_واناالیہ_راجعون

نمازجنازہ اشرف علی ص،نےپڑھائ ہزاروں  علماءجنازہ میں شریک ہوۓ،
اور،راوالپنڈی ہی کے قبرستان میں حضرت رح، کی وصیت کے مطابق دفن کیۓگے.

هزاروں سال نرگس اپنی بےنوری پہ روتی ھے،
بڑی مشکل سےھوتاہےچمن میں دیدہ ورپیدا.

18فروری یوم وفات شیخ الحدیث علامہ محمدحسین شاہ نیلوی رح

Sunday, January 3, 2016

تقلید

تقلیدکی لغوی تعریف اسکاماخذ اشتقاق قلادۃ ھے قلادۃ پٹ اورھارکوکھتےھیں اگرجانورکے گلۓمیں تو پٹہ انسان کےگلے میں توھار اصطلاحی تعریف وھوعبارۃ عن اتباعہ فی قولہ اوفعلہ معتقداللحقیۃ من غیرتامل فی الدلیل شرح المنار252ترجمہ دلیل میں غوروفکرکۓ بغیرکسی کوحق پرسمجھتے ھوۓقول یافعل میں اسکی پیروی کرنا


فلولانفرمن کل فرقۃمنھم طآئفۃلیتفقھوافی الدین ولینذرواقومھم اذارجعواالیھم لعلھم یحذرون (توبہ122) ھرفرقہ میں سےایک طائفہ کیوں نھیں کہ دین کی سمجھ پیداکریں اوراپنی قوم کوڈرائیں جب انکی طرف لوٹےشایدکہ یہ ڈریں علامہ الوسی رح فرماتےھیں فان العلماءھم المستنبطون المطرحون للاحکام (روح المعانی)


تعریف 3:
التقلیداتباع الغیرعلی ظن انہ محق بلانظرفی الدلیل [النامی شرح الحسامی190 ] دلیل میں غوروخوص کۓ بغیرکسی کی اتباع کرنایہ گمان رکھتے ھوۓکہ وھ حق پرھے


تقلیدکاثبوت قرآن مجیدسے:
1:
فسئلوآاھل الذکران کنتم لا تعلمون [سورۃالنحل43] ترجمھ: اگرتم نھیں جانتےھوتو اھل علم سےدریافت کرلیاکرواس آیت کی تفسیرمیں علامہ الوسی رح فرماتے ھیں واستدل بھاعلی وجوب المراجعۃللعلماء فیمالانعلم روح العانی ج4 ص 148
اس آیت سےاستدلال کیاگیاھےکہ جس بات کاعلم نہ ھواس میں علماءکی جانب رجوع کرناواجب ھےیھی بات علامہ ابن البر فرماتےھیں جامع بیان العلم وفضلہ2/989


اایھااالذین امنوااطیعوااللہ واطیعواالرسول واولی الامر منکم (نساء83)اےایمان والو اللہ اور رسول اوراپنےمیں سےاولی الامرکی اطاعت کرواولی الامرسےمراد اکثرمفسرین کےنزدیک علماء مجتھدین ھیں یھی بات حضرت عبداللہ بن عباس جابربن عبداللہ رض حسن بصری عطاءبن ابی رباح رح جیسےاکابر مفسرین سےمنقول ھے


 ایت واذاجآءھم امرمن الامن اولخوف اذاعوابہ ولوردو الی الرسول و الی اولی الامرمنھم لعلمہ الذین یستمبطونہ منھم نساءایت 83
جب انکےپاس امن یاخوف کاکوئی معاملہ آتاھےتو اسےمشھور کردیتےھیں اگرپیغمبرخدا اوراپنےمیں سےاولی کےپاس لےجات توان میں جواھل استنباط [یعنی مجتھدین] ھیں اسےاچھی طرح جان لیتے


 تقلیداوراتباع ایک ھی چیزھے تقلیدکی تعریف میں لفظ اتباع موجودھے ھمارادعوی یہ ھےکہ تقلیداوراتباع ایک چیزھے غیرمقلدین اسکےقائل نھیں وھ کھتےھیں کہ تقلید الگ چیزھےاتباع الگ تقلید مزموم جبکہ اتباع محمودھے ھماری دلیل یہ ھےکہ معرف اورمعرف دونوں ایک ھی ھوتےھیں اورتقلیدکی تعریف میں اھل لغت نےلفظ اتباع کوذکرکیاھے جیساکہ تعریفات سےظاھرھے اگران دونوں میں فرق ھوتا تو اھل لغت تقلیدکی تعریف اتباع سےنہ کرتے

جوانی کی اهمیت

*جوانی کی ابتداء*
لڑکےکی جوانی شریعت میں مختلف علامتوں سے  پہچانی جاتی ہے. *احتلام کاھوجانا.یا *اس سےکسی عورت کاحمل پھیرنا.یا *شہوت کےساتھ انزال کاھوجانا، لیکن اگراسطرح کی کوئ بلوغ کی علا مت ظاھرنہ ھو، توپندرہ سال پورےہونے پرشریعت یہ بچہ بالغ شمار ھوتاہے-(جاری)


*جوانی کی ابتداء*
میسج#2:لڑکی کی بلوغت کی علامت:*حیض کا  آنا،*احتلام کاھوجانا،*حمل ٹھہرنا. *بیداری میں شہوت کےساتھ مخصوص پانی(منی) کانکلنا،ان علامات میں سےاگرکوئی علامت ظاھرنہ ھو،تو15 سال پربالغہ شمار ھوگی-بالغ ھونےلڑکاولڑکی دونوں احکام_شرعیہ کے مکلف ہوجاتے ھیں. نماز،روزھ اوردیگراحکام ان پرفرض ہوجاتےھیں.(جاری)


*جوانی کی حفاظت*
[میسج#1]
*والدین پرلازم ہےکہ اپنےبچوںکوھر قسم کےغلط ماحول اوربری باتوںسےدوررکھنےکیپوری کوشش جاریرکھیں.*والدین پریہ بھی لازم ہےکہ جوانی کو پہنچنےوالےبچوںکوشرعی مسائل  سےآگاہ کریں.¤بچوںکووالدصاحبسمجھائے¤بچیوںکووالدہمسائل سےآگاہ کرے.*بچوںکوغلط ماحول سےدوررکھنےکےلئےانکودینی علمسیکھنےکا پابندبنائیں.جب مدرسۂ، ومسجدسےانکی واپسی ھو.توگھرمیںبھی انکےلئے دینی کتب موجودھوں.جنکووہ فراغت م پڑھاکرے


*جوانی کی حفاظت*¤میسج#2¤*جوانی کی ابتداء15سال سے20،و22  سال کی عمرتکاپنی جوانی کی حفاظت خوب کریں.ھرقسم کےبیحیائیاوربرےکاموںسےاپنی خوب حفاظت کریں.*اسلئےتوشریعتنے10سال کی عمرکےبچوںکابسترالگ کرنےکاحکم دیاہے.تاکہ انکےخراب ہونےکاخطرہ باقینہ رہجاۓ.*کسی حاملہ عورتجواپنےقریبی عزیزسےحاملہ بنی.اسے کسی نےپوچھاتوحاملہ کیسےبنگئ؟اس نےکہایہ یہقریب(1ہی بسترپر)سونےاوردیرتکسرگوشی کرنےکانتیجۂہے|بسترجدا کرنالازم


*جوانی کی حفاظتکیسےکریں؟*(میسج#3)*ان بچوںکابسترجداکر  یں.جنکی عمر10سال تک ہوجاۓ.اگرچہ بہن بھائ ہوں.*نوعمربچوںکابلکل  تنہائ میںرہنا،اورسونابھی اچھانہیں. اسےذھن میںانتشار پیداھوگاجومختلفخطرات کاباعث ہوگا.*ابتدائ جوانی میںبدن کی صفائخصوصا'عضوتناسل'کی صفائنہایت صفائضروری ہے.ورنہ میل کچیلجمع ھوگا.جسکیوجہ سےکھجلی،اورکھال کی بیماریاںپیداہونگی.نیزکھجانےسےشہوتولذت  پیداہوکرنقصان دہ اثراتظاھرھونگے(جاری)


*جوانی کیحفاظت کیسےکریں؟*[میسج#4]*جوان بچوںکوکسی بھی   اچھےکام میںمشغولرکھاجائے.بیکاررکھنا بہت بری بات ہے.کیونکہ عقل مندوں کی ایک سچی کہاوت ہےکہ''بیکاری بدترینمشغلہ ھے''اس بیکاری کیوجہ سےجلدآوارگی پیدا ھوتی ہے.عمومادیکھا گیاہےجونوجوانبیکاررھتےھیںوہ عمومامشتزنی،اوربدفعلی جیسے خطرناک لعنتی کاموںمیںمبتلاھوجاتےھیں.*برےدوستوں،اور ساتھیوں،اوربریصحبت سےدورھنابہتضروری ھے.بری صحبت سےتواچھےبھی بگڑجاتےھیں(ج)


*جوانی کی حفاظتکیسےکریں؟*[میسج#5]*غلط لٹریچر،افسانے،نا ول،عشقیہ قصےکہانیاں،محبت نامےوغیرہپڑھنا نفسانی خواہشومیلان   کوبھڑکاکرآدمیکوغلط راستےپرلےجاتاہے.*اسیطرح سینما،فلمی تصاویردیکھنا،گانابجانا،جوان لڑکیوںسےآنکھیںملانا(بدنظری کرنا)یہ باتیں زھر سےکم نہیں.اسلئےھرشخص،خصوصاجوان کوان سےبچنابہت ضروری ھے. (جاری ہے)


*جوانی کی حفاظت کیسےکریں؟*[میسج#6]*اگرمکان میں نوکروغیرہ کی آمدورفت ھو،توانکے،اورگھرکےبچوںکےتعلقات پرکڑی نظررکھیں.ورنہ بعض مرتبہ ھنسی مذاق میںگھروںکےگھرتباہ کردیتےھیں.اسطرح کے   تعلقات.*اچھےلوگوں سےمیل جول، اوراچھی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے، اور عمدہ دینی لٹریچر،پڑھتےرھنےکی ترغیب دیتےرہاکریں. (جاری)کل سے  انشاءاللہ*جوانی کی اہمتاحادیث کی روشنی میں* کےعنوان کا آغاز ھوگا


*جوانی کی حاظت احادیث کی روشنی میں*[میسج#1] میرےدوستو! جوانی اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے. اسکی قدران نوجوانوں سےجاسکتی ہے. جواپنی جوانی اپنےہاتھوں سےتباہ کرچکےھیں. اوراب وہ سوائےافسوس کے کچھ نہیں کرسکتے. اوریہ جوانی14 برس سے32برس تک ھوتی ہے. احادیث سےمعلومھوتاہے. کہ قیامتکےدن 'جوانی' کابھی حساب ہوگا.کہ جوانی  کہاں صرف کی تھی؟
(جاری)


*جوانی کی اھمیت احادیث کی روشنیمیں*.[میسج#2]حدیث:<خیرکم شابکممن تشبہ بکھولکموشرکھولکم من تشبہ بشبابکم>ترجمہ:فرمایا... تم میں سےبہترینوہ 'جوان' ھیں.جوبوڑھوںکی طرح ہو،اوربدترین وہبوڑھاہے.جوجوانوں کی طرح ھو-[جوانو!)جوان میںیہ صفت ہونی چاہیئےکہوہ اپنےآپکوبوڑھاسمجھتےھوۓموت کےقریب سمجھے.بہت سےبوڑھےایسے  ھیں.جنکےسامنے لاکھوںجوان مرچکے ھیں.مگرانکوموت قریب نہیںلگتی


-*جوانی کی اہمیتاحادیث کی روشنیمیں*[میسج#3]حدیث:<توبۃشابحد احب الی اللہ تعالی توبۃ الف شیخ>ترجمہ:اللہ کےنزدیک جوان کی   توبہ ہزاربوڑھوںکی توبہ سےزیادہمحبوب ہے.حدیث:<احب التوبۃالی  اللہ توبۃ الشاب>ترجمہ:جوان کی توبہ اللہ کےنزدیکزیادہ محبوب ہے-(جاری)آج ھمیںگناہوںسے،اورگناہوںپرپشیمانی،اوراستغفارکرنےسے  صرف اسی جوانی نےروک لیاہے.کہ جی اب توھم جوان بوڑھےھوکر توبہ کرلینگےلیکن ابھی وقت ہےاپنےرب کومنانےکا


*جوانی کی اھمیتاحادیث کی روشنیمیں*.[میسج#4]حدیث:1:جوان کی1رکعت بوڑھےکی10رکعتوںسےافضل ہے.اورجوان کی توبہ کواللہ دوسترکھتاہے-حدیث:2:ھرروز1فرشتہاعلان کرتاہے.اےجوانو!اپنی جوانی ضائعمت کرو، ورنہپچتاؤگے-حدیث:3:اللہ تعالی فرماتاہے.اےجوان میںنےتجھےجوانی دی.تاکہ توکام، اورتوبہکرے.افسوس ہیکہتوبیکاررہتا ہے.اور(جوانی والی)نعمت کی ناشکری کرتاہے.آگاہ ہوجاکہمیںتجھےدوزخمیںالٹالٹگاؤںگا-(جاری)یاخداھمپررحمکر



 -*جوانی کی اھمیتاحادیث کی روشنیمیں*.[میسج#5]حدیث:<ان  ا للہ یبغضالشاب الفارغ¤وفی روایۃ رجل الفارغ>ترجمہ:اللہ تعالی   بیکارجوانبندےسےبغض(اسےناپسندرکھتاہے]حدیث:<طوبی' للشاب التائب_ثم طوبی>ترجمہ:توبہ کرنےوالےجوان کےلئے(دنیامیںبھی)خوشیہے.. اور(آخرت میںبھی)خوشی ہے.(جاری)


*جوانی کی اہمیت*[میسج#6]حدیث:<ان للشاب التآئبعند اللہ  اجرا عظیما>ترجمہ:توبہ کرنے والےجوان کےلئےاللہ کےہاں بڑا اجرہے.
*.کل سےانشاءاللہ مشت زنی کا بیان شروع ھوگا


*مشت زنی کابیان*
(میسج#1
)مشتزنی کےبہت سےنام ھیں. *اس کو  جلق بھی کہتےھیں*خودلذتی بھی اسے کہاجاتاہے.*عربی میں اسے'استمنی' بالید'*انگریزی میں'ماسٹربیشن'،Mastrubation,اور'ھینڈپریکٹس' Handpraticeبھی کہاجاتاہے.(جاری)


*مشت زنی کابیان*
[میسج#2]قرآن:(اےنبی صہ)ایمانداروںسےفرما دیں کہ وہ نگاہیں نیچی رکھاکریں.اوراپنی شرمگاہوںکی حفاظت کیاکریں.یہ(آنکھوںکونیچی رکھنا،شرمگاہوںکی حفاظت کرنا)انکےلئےبڑی پاکیز گی کی بات ہے-(سورۃ النور.پ 18.آیۃ30)اس آیت میںآنکھوں، اورشرم گاہ کی حفاظت کوساتھ ساتھ بیان فرماکریہ سبقدیاکہ شرمگاہ کی حفاظتکھوںکی     حفاظت پرموقوف ہے.جسنےآنکھوںکی حفاظت کااھتمام نۂ کیا.تواسکی شرمگاہ کی حفاظت خطرےمیںہے(جاری)


*مشتزنی کابیان*[میسج#3]سورۃالنور.آیۂ30کی تفسیرکرتےہوۓ  معارف القرآنمیںحضرت مفتی محمدشفیع رحہ نے لکھا:شرمگاہ کی حفاظت  سےمرادیہ ہےکہ نفس کی خواہش پورا کرنےکی جتنی ناجائزصورتیںھیں.ان  سب سےاپنی شرمگاہوںکومحفوظ رکھیں.اسمیںزنا.لواطت،اور2عورتوںکا باھمی سحاق جسے شہوت پوری ہوجائے، ہاتھ سےشہوت پوریکرنا.یہ سب ناجا ئز وحرام چیزیں(ان ناجائزصورتوں میں)داخل ھیں-(جاری):(سبق ھمکو یہ ملا)کہ ھم ان تمام حرام کاموںسےبچیں


*مشتزنی کابیان*[میسج#4]¤شرمگاہوںکی حفاظت¤قرآن:اورجولوگ  اپنی شرمگاہوںکی(حرام افعال سے)حفاظت کرنےوالے ہیں.ہاں:انکی بیویوں،اورلونڈیوںکےبارے میں جنکےوہ مالکہیں.(ان سےجنسی خواھش پوری کرنےپر)انہیںکوئ ملامت نہیں.(سورۃالمؤمنون.پ 18. آیۃ 5،6..سورۃ المعارجپ 29، آیۃ 29،30):[وضاحت]جنسی تسکین کےلئے2جائزذرائع،ھیں1.بیوی.2.لونڈی.آجکل اسلام کی بتلائ گئ تدابیرکی روسےلونڈیوںوالاسسٹم تقریباختم،قانون باقی ہے(جاری)


*مشتزنی کابیان*[میسج#5]تفسیرروح البیان میں<والذین ھم    لفروجھم حافظون>آیۃکےتحت لکھاہے<الفرج والفرجۃ>بمعنے2چیزوںکےدرمیان سراخ،دیوارکےسراخ کوفرج وفرجۃسےتعبیرکرتےھیں.2پاؤںکےدرمیانکےحصےکوفرج کہاجاتاہے.یہاںپرشرمگاہ مرادہے یعنے.وہ اپنی فروج( شرمگاہوںکو)حرام سےروکنےوالے ھیں.اورانہیںغیروں کی_ملک میںنہیںچھوڑتے.اورنہ ہی انھیںبیجااستعمال کرتےھیں.سواۓاپنی عورتوںکے،اوراپنی کنیزوںکے.جوانکیاپنی_ملک میںھیں(جاری)


*مشتزنی کابیان*(میسج#6)تفسیرحقانی میںھےکہ<والذین ھملفر وجھم حافظون>کےتحت لکھاہےکہاس(آیت)سےلواطت،اورسحق،اورہاتھ سےمنی نکالنےکی بھی ممانعت ثابت ہوئ.اورمتعہ کی ممانعت بھی سمجھی گئی.  (جاری)اپنی.اوراپنےنوجوانوں کی جوانی کاخوباحساس کرتےھوئےجوانی کی خوب حفاظت کریں.


*مشتزنی کابیان*[میسج#7]مفہوم_قرآن:جواسکے(بیویوں،اور با ندیوں)کےعلاوہ (شہوت پوراکرنےکی جگہیں)تلاش کرے.تووہشریعت کی  حدسےنکلنےوالےہیں.(سورۃالمؤمنونپ 18. آیۃ 7)روح المعانی میں اس آیت کےلکھاہےکہجمہورائمہ رح مشت زنی کی حرمت کے قائل ھیں.(جاری)


*مشتزنی کابیان*[میسج#8]سورۃالمؤمنون کیآیت7کےتحت تفسیر   مظہری میں لکھاہے.<وھذہ الآیۃناسخۃلمتعۃالنسآء،ایضافی ھذہ الآیۃدلیل علی ان الاستمنا بالید حرام>اس آیت سےعورتوںکےساتھ متعہکرنےکی اجازت منسوخ ھوگئی،اور اسیطرحیہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہےکہ استمنابالید(مشت زنی)بھی حرام ہے. عام علماءکایہی قول ہے. (جاری)


*مشت زنی کابیان*[میسج#9]سورۃالمؤمنون کیآیۃ7کےتحت تفسیر  ابن کثیرنےلکھا.کہ امام شافعی رحہ،اورانکےموافقین نےاس آیت سے  استدلال کیاہےکہاپنےہاتھ سےاپناخاصپانی نکالڈالناحرام ہے.کیونکہ یہ(ہاتھ سےخاص پانی خارج کرنےکا طریقہ)ان دونوں صورتوں(بیوی،اورباندی) کےعلاوہ ہے. اور مشت زنی کرنےوالا شخص بھی حدسےآگےگزرجانےوالاہے¤(جاری ہے)


*مشت زنی کابیان*(میسج#10]اگرمشتزنی کی مذمت پراگرقرآ
نی آ یات،اوراسکی تفسیرمیںمفسرینکی تفسیرکاسلسلہاگرجاری رکھاجائےتو آنےوالےاھم موقعوںکی مناسبت سےھمارےپروگرام شوونہ ھوسکینگےاسلئےضروری ھیکہ1قدم آگےنکل کراحادیٹ،اوراقوال کی روشنی میںاسی سلسلےکوآگے چلاسکیں.توانشاءاللہ عزوجل کل سےھم'مشتزنی کی مذمت' پراحادیث، اوراقوال کاآغاز کرینگے.تواپنےسب دوستوںکوضرورفالوکرکےدیں


*مشت زنی کابیان*[میسج#11]علامہ آلوسی رحمۃ اللہ نےلکھاھے. <ماذکرہ المشائخمن قولہ صلےاللہعلیہ وسلمناکح الید_ملعون>ترجمہ:مشائخ رحہ نےآپ صہ فرمان ذکر      کیاھے.کہہاتھ سےنکاح(ہاتھ سے  زناء، <مشتزنی>)کرنےوالاملعون ھے.(تفسیرروح المعانی) [جاری ھے]


*مشت زنی کابیان*(میسج#12)علامہ آلوسی رحہ لکھتےھیں.<وعن  سعید بن جبیررضہ عذب اللہ تعالی امۃ کانوا یعبثون بمذاکیرھم>ترجمہ: حضرت سعیدبن جبیررضہ فرماتےھیں.کہ اللہ تعالی امت کے(ان لوگوںکو)عذاب دیگا.جواپنی شرمگاہوں کےساتھ فضول(مشتزنی کی صورت میں)غلط طریقہ سےاستعمال کرتےھیں(جاری)(روح المعانی)


*مشتزنی کابیان*[میسج#13]حضرت عطاء(تابعی) رحہ فرماتےھیںکہ 1قوم کاحشرقیامتکےدن اس حال میں ھوگاکہ انکےہاتھ حاملہ ھونگے(فرمھیں)میرا خیال یہ ھیکہ یہ وہ لوگ ھونگےجواپنے ھاتھوںسےمنی نکالنے والےھیں.(روح المعانی)علامہ شامی نےبھی فتاوی شامی میںلکھا ھےکہ..یہ وھی لوگ ھونگےجواپنےہاتھ کوشرمگاہ سےرگڑکر منی نکالتےھونگے.( فتاوی دارالعلوم دیوبند:جلد2)(جاری ھے)


*مشتزنی کابیان*[میسج#14]حدیث:ہرآدمی کوزنا سےکچھ نہ کچھ   واسطہ پڑتاہےآنکھیںزناکرتی ہیںانکازنا(ناجائز)دیکھنا ہےہاتھ زناکرتےہیںانکازناپکڑناہےپاؤںزناکرتےھیںانکازنا(ناجائزراہ کی طرف) چلناہےمنہ زناکرتاہےاسکازنا(کسی کوناجائزطریقہ سے) بوسہ دیناہے.دل ارادہ کرتاہےشرمگاہ(کبھی)اسکی تائیدکرتے ہےاور(کبھی)تکذیبکردیتی ہے.(مسلم.ابوداؤد.نسائ)کل سےقربانی کے احکام ومسائل کا آغازھوگا.انشاءاللہ

Saturday, January 2, 2016

یزید رح

جناب یزید کو گالیاں دینے سے پہلے اتنا سوچ لیں کہ یزید کے ہاتھوں 300سے زاید صحابہ کرامؓ نے بیعت کی تھی ان میں چند بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ جیسے حضرت عبداللہ بن عمر، عبد اللہ بن عباس، ابو سعید خدری، ابو ایوب انصاری، ابو عبداللہ انصاری، جابر بن عبداللہ انصاری، سلمہ بن اکوع انصاری، ابو امامہ انصاری، اسامہ بن زید ، انس بن مالک، جابر بن سمرہ، جریر بن عبداللہ ، عبداللہ بن جعفر طیار، عبداللہ بن عامر ، عدی بن حاتم رضوان اللہ تعالی علیھم عنھم اجمعین شامل تھے، جنہوں نے نہ صرف یزید کی ولی عہدی کی بیعت کی بلکہ مرتے دم تک انکے خلیفہ بننے کے بعد بھی بیعت پر قایم رہے۔ نیر انکی ولی عہدی کی بیعت کرنے اور خلیفہ بننے تک کل 5 امہات المونین (حضرت حفضہ، حضرت جویرہ، حضرت عایشہ صدیقہ، حضرت ام سلمہ، اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنھم) شامل تھین۔ اسکے علاوہ کیی عظیم المرتبت تابعی جن میںحضرت محمد بن الحنفیہؒ (برادر سیدنا حسین ؓ) بھی بعیت میں شامل تھے۔
تو بھائ بقول آپ کے اگر یزید "فاسق و فاجر" تھا تو کیا یہ سب اصحابہ کرام ؓبھی اپنا دین و ایمان کھو چکے تھے نعوذ باللہ جو اس "فاسق، فاجر، پلید" آدمی کے ہاتھ پر بیعت کی اور مرتے دم تک اپنی بیعت پر قایم رہے :Astaghfirullah: ۔ کیا صحابہ کرام کا ایمان اتنا نا پختہ تھا؟ کہ آنحضرت ﷺکے وصال کے بعد ہی انہوں نے حضور کی تعلیمات بھلا دیں ۔کیا یہ صحابہ کرام ؓ بھی بقول آپکے "خارجی اور ناصبی" تھے۔
یہ عقیدہ رکھنا کسی شیعہ کے حق میں تو مفید ہو سکتا ہے جو سرے سے صحابہ کرام کو مرتد و منافق جانتا ہے، لیکن اہل سنت و الجماعت کے دعوداروں کے لیے یہ عقیدہ رکھنا سراسر جاہلیت نادانی اور گمراہی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ آپ جیسا کہ میں نے مشورہ دیا ہے اس پر عمل کریں اور یاد رکھیں کہ صحا بہ کرام ؓ کی عظمت میں ہی ہماری عظمت ہے کیونکہ حضور ﷺکے بعد جن کے ہاتھوں ہمیں یہ دین پہنچا وہ یہ ہی عظیم المرتبت ہستیاں تھیں۔ اللہ ان پر کڑوڑوں کڑوڑوں رحمتیں نازل کریں۔ آمین
اس بات کا کوئ بک ریفرینس دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے تقریبا 20 صحابہ کرام ؓکے جو نام لکھیں ہین انکی سن وفات لکھ دیتا ہوں۔ ان تمام صحابہ کرام کے متعلق کوئ ایک ایسی روایت نہیں ملتی جو یہ بتاتی ہو کہ انہوں نے ولی عہدی یا یزید کی خلافت کی بیعت فسخ کی ہو۔ اور یہ بھی جان لیں کہ امیر معاویہ ؓ نے تمام عالم اسلامی سے یزید کی بیعت لے لی تھی۔ (دیکھیں البدایہ و نہایہ)
حضرت حفضہ ؓ سن 54ہجری
حضرت جویریہ ؓ سن 56ہجری
حضرت عایشہ ؓ سن 58ہجری
حضرت ام سلمہ ؓ سن 59ہجری
حضرت میمونہ ؓ سن 61ہجری
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سن 74ہجری
حضرت عبداللہ بن عباسؓ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓکے دور خلافت میںوفات پائ
حضرت ابو سیعد خدریؓ اموی خلیفہ عبدالمالک کے عہد تک زندہ رہے
حضرت ابوایوب انصاری ؓ سن 49 ہجری میں قسطنطیہ کی محاصرے میں وفات پائ (ولی عہدی یزید کی بیعت میں شامل تھے)
حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ سن 76 یا 78 ہجری
حضرت سلمہ بن اکوعؓ سن 74 ہجری
حضرت ابو امامہ باہلی ؓ سن 62 ہجری
حضرت اسامہ بن زیدؓ سن 54 یا 59 ہجری
حضرت انس بن مالکؓ اموی خلیفہ ولید کے عہد تک زندہ رہے
حضرت جابر بن سمرہؓ سن74 ہجری
حضرت جریی بن عبداللہؓ سن 54 ہجری
حضرت عبداللہ بن جعفر طیارؓ سن85 ہجری
حضرت عبداللہ بن عامر ؓ سن 59ہجری
حضرت عدی بن حاتمؓ سن 68ہجری
یاد رہے واقعہ کربلا، حضرت حسینؓکی شہادت سن 61 ہجری میں ہوئ تھی۔
اسکے علاوہ مزید کیی نام ہیں۔ یہ معلومات میں نے مختلف کتابوں مثلا العواصم و القواصم ، تاریخ طبری، البدایہ والنہایہ ، تاریخ ابن خلدون اور تاریخ ابن اثیر سے حاصل کیں ہی۔ اگر آپ ذوق مطالعہ رکھتے ہیں تو ان کتابوں کو مطالعہ کریں، حقیقت آشکار ہو جاءے گی ۔ نیز ذرا یہ بھی مجھے بتادیں کہ سیدنا حسینؓکے ساتھ کوفہ جانے والے قافلے میں کتنے صحابی شامل تھے۔ اور کن صحابہ نے یزید کو واضح لفظوں میں "فاجر و فاسق" کہا تھا۔ مکمل حوالہ بمع سند کے درکار ہے۔

تعوزات کے بارے احادیث

[7:05AM, 11/29/2015] Fiaz Tohedi: ﺍﺑﻮ ﺑﺸﯿﺮ ﺍﻧﺼﺎﺭﯼ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ :
‏[ qh‏] ‏(ﺃَﻧَّﻪُ ﻛَﺎﻥَ ﻣَﻊَ ﺭَﺳُﻮﻝِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﷺ ﻓِﻲ ﺑَﻌْﺾِ ﺃَﺳْﻔَﺎﺭِﻩِ
ﻓَﺄَﺭْﺳَﻞَ ﺭَﺳُﻮﻟًﺎ ﺃَﻥْ ﻟَﺎ ﻳَﺒْﻘَﻴَﻦَّ ﻓِﻲ ﺭَﻗَﺒَﺔِ ﺑَﻌِﻴﺮٍ ﻗِﻠَﺎﺩَﺓٌ ﻣِﻦْ
ﻭَﺗَﺮٍ ﺃَﻭْ ﻗِﻠَﺎﺩَﺓٌ ﺇِﻟَّﺎ ﻗُﻄِﻌَﺖْ ‏) ‏( ﺻﺤﯿﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﯼ، ﺍﻟﺠﻬﺎﺩ،
ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﻗﯿﻞ ﻓﯽ ﺍﻟﺠﺮﺱ ﻭﻧﺤﻮﻩ ﻓﯽ ﺍﻋﻨﺎﻕ ﺍﻻﺑﻞ، ﺡ
3005: ﻭ ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ، ﺍﻟﻠﺒﺎﺱ، ﺑﺎﺏ ﮐﺮﺍﻫﺔ ﻗﻼﺩﺓ
ﺍﻟﻮﺗﺮ ﻓﯽ ﺭﻗﺒﺔ ﺍﻟﺒﻌﯿﺮ،ﺡ 2115: ‏)‏[ qh/‏]
“ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﮐﺴﯽ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ
ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﺎﺻﺪ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﻧﭧ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻧﺖ ﮐﺎ ﮨﺎﺭ ﯾﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺭ ﻧﮧ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺳﮯ ﮐﺎﭦ ﺩﯾﺎ
ﺟﺎﺋﮯ۔” ‏(2 ‏)
ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ' ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺﮐﻮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﻨﺎ :
‏[ qh‏] ‏( ﺇِﻥَّ ﺍﻟﺮُّﻗَﻰ ﻭَﺍﻟﺘَّﻤَﺎﺋِﻢَ ﻭَﺍﻟﺘِّﻮَﻟَﺔَ ﺷِﺮْﻙٌ ‏) ‏( ﻣﺴﻨﺪ
ﺍﺣﻤﺪ 1: / 381 ﻭ ﺳﻨﻦ ﺍﺑﯽ ﺩﺍﻭﺩ، ﺍﻟﻄﺐ، ﺑﺎﺏ ﺗﻌﻠﯿﻖ
ﺍﻟﺘﻤﺎﺋﻢ، ﺡ 3883: ‏)‏[ qh/‏]
“ ﺑﻼ ﺷﺒﮧ ﺟﮭﺎﮌ ﭘﮭﻮﻧﮏ ‏( ﺩﻡ ‏) ' ﺗﻌﻮﯾﺬ ﮔﻨﮉﮮ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﮨﻤﯽ
ﻋﺸﻖ ﻭ ﻣﺤﺒﺖ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ
ﭼﯿﺰﯾﮟ ' ﯾﮧ ﺳﺐ ﺷﺮﮎ ﮨﯿﮟ۔” ‏(3
[7:06AM, 11/29/2015] Fiaz Tohedi: ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﮑﯿﻢ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ،
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
‏[ qh‏] ‏( ﻣَﻦْ ﺗَﻌَﻠَّﻖَ ﺷَﻴْﺌًﺎ ﻭُﻛِﻞَ ﺇِﻟَﻴْﻪِ ‏) ‏(ﻣﺴﻨﺪ ﺍﺣﻤﺪ 4: / 310 ،
ﻭ ﺟﺎﻣﻊ ﺍﻟﺘﺮﻣﺬﯼ، ﺍﻟﻄﺐ، ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﺟﺎﺀ ﻓﯽ ﮐﺮﺍﻫﯿﺔ
ﺍﻟﺘﻌﻠﯿﻖ، ﺡ 2072: ‏)‏[qh/ ‏]
“ﺟﻮﺷﺨﺺ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ‏( ﮔﻠﮯ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻣﯿﮟ ‏) ﻟﭩﮑﺎﺋﮯ ﺗﻮ
ﺍﺳﮯ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﺳﭙﺮﺩ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔” ‏(5 ‏)
ﺭﻭﯾﻔﻊ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﻪ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺﻧﮯ ﻣﺠﮫ
ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
‏[ qh‏] ‏(ﻳَﺎ ﺭُﻭَﻳْﻔِﻊُ ﻟَﻌَﻞَّ ﺍﻟْﺤَﻴَﺎﺓَ ﺳَﺘَﻄُﻮﻝُ ﺑِﻚَ ﺑَﻌْﺪِﻱ ﻓَﺄَﺧْﺒِﺮْ
ﺍﻟﻨَّﺎﺱَ ﺃَﻧَّﻪُ ﻣَﻦْ ﻋَﻘَﺪَ ﻟِﺤْﻴَﺘَﻪُ ﺃَﻭْ ﺗَﻘَﻠَّﺪَ ﻭَﺗَﺮًﺍ ﺃَﻭْ ﺍﺳْﺘَﻨْﺠَﻰ
ﺑِﺮَﺟِﻴﻊِ ﺩَﺍﺑَّﺔٍ ﺃَﻭْ ﻋَﻈْﻢٍ ﻓَﺈِﻥَّ ﻣُﺤَﻤَّﺪًﺍﷺﻣِﻨْﻪُ ﺑَﺮِﻱﺀٌ ‏) ‏( ﻣﺴﻨﺪ
ﺍﺣﻤﺪ 4: / 108 ، 109 ﻭ ﺳﻨﻦ ﺍﺑﯽ ﺩﺍﻭﺩ،ﺍﻟﻄﻬﺎﺭﺓ، ﺑﺎﺏ ﻣﺎ
ﯾﻨﻬﯽ ﻋﻨﻪ ﺍﻥ ﯾﺴﺘﻨﺠﯽ ﺑﻪ ﺡ 36: ‏) ‏[qh/ ‏]
“ﺍﮮ ﺭﻭﯾﻔﻊ ! ﺷﺎﯾﺪ ﺗﻢ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮨﻮ۔ ﺗﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ
ﺑﺘﺎﺩﯾﻨﺎ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﮈﺍﮌﮬﯽ ﮐﻮ ﮔﺮﮦ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﯾﺎ
‏(ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﮯ ‏)ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻧﺖ ﮈﺍﻟﯽ ﯾﺎ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﮯ ﮔﻮﺑﺮﯾﺎ
ﮨﮉﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺳﺘﻨﺠﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻻﺷﺒﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﷺ ﺍﺱ ﺳﮯ
ﺑﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺯﺍﺭ ﮨﮯ۔” ‏(6 ‏)
ﺳﻌﯿﺪ ﺑﻦ ﺟﺒﯿﺮ ﺭﺣﻤﺘﻪ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﻪ ﺳﮯ ﻣﻨﻘﻮﻝ ﮨﮯ، ﻭﮦ
ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ :
‏[ qh‏] ‏( ﻣﻦ ﻗﻄﻊ ﺗﻤﻴﻤﺔ ﻋﻦ ﺇﻧﺴﺎﻥ ﻛﺎﻥ ﻛﻌﺪﻝ ﺭﻗﺒﺔ ‏)
‏(ﺍﻟﻤﺼﻨﻒ ﻻﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺷﻴﺒﺔ : ﺡ 3524: ‏)‏[ qh/‏]
“ﺟﺲ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﺳﮯ ﺗﻤﯿﻤﮧ ‏( ﺗﻌﻮﯾﺬ ‏)
ﮐﺎﭦ ﭘﮭﯿﻨﮑﺎ، ﺍﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﺮﺩﻥ ‏( ﻏﻼﻡ ‏) ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ
ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺛﻮﺍﺏ ﮨﻮﮔﺎ۔” ‏(7 ‏)
ﺍﻭﺭ ﻭﮐﯿﻊ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ
ﮐﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﺍﺑﺮﺍﮬﯿﻢ ﻧﺨﻌﯽ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ
ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
‏[ qh‏] ‏(ﻛﺎﻧﻮﺍ ﻳﻜﺮﻫﻮﻥ ﺍﻟﺘﻤﺎﺋﻢ ﻛﻠﻬﺎ ، ﻣﻦ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ﻭﻏﻴﺮ
ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ‏) ‏( ﺍﻟﻤﺼﻨﻒ ﻻﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺷﻴﺒﺔ، ﺡ 3518: ‏)‏[ qh/‏]
“ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩ، ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺍﻭﺭ
ﻏﯿﺮ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﮨﺮ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﺋﻢ ‏(ﺗﻌﻮﯾﺬﺍﺕ ‏) ﮐﻮ ﻧﺎ ﭘﺴﻨﺪ
ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔

تعویز کی شرعی حیثیت

ﺗﻌﻮﯾﺬ ﮐﯽ ﻟﻐﻮﯼ ﻭﺍﺻﻄﻼﺣﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ:
ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺘﻌﻤﻞ ﻟﻔﻆ ” ﺗﻌﻮﯾﺬ “ ﮐﺎ ﻋﺮﺑﯽ ﻧﺎﻡ
” ﺍﻟﺘﻤﯿﻤﺔ “ ﮨﮯ۔ ﻋﺮﺑﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ” ﺍﺍﻟﺘﻤﯿﻤﺔ ‘ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ
ﺍﺱ ﺩﮬﺎﮔﮯ، ﺗﺎﺭ ، ﯾﺎ ﮔﻨﮉﮮ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ، ﺟﺴﮯ ﮔﻠﮯ ﯾﺎ
ﺟﺴﻢ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﺪﮬﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔
ﺍﺻﻄﻼﺡ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﯿﻤﺔ ﮐﺴﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ
ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻦ ﺍﻷﺛﯿﺮ ﺍﻟﺠﺰﺭﯼ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺍﮨﻞ
ﻋﻠﻢ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻔﺎﺕ ﮐﺎ ﺧﻼﺻﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ
ﻭﮦ ﺩﮬﺎﮔﮯ، ﮔﻨﮉﮮ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮ ﮐﮯ ﺗﺎﻧﺖ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮭﯿﮟ ﺍﮨﻞ
ﻋﺮﺏ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ، ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﯾﺎ ﮔﮭﺮﻭﮞ
ﻭﻏﯿﺮﮦ ﭘﺮ ﮐﺴﯽ ﻣﺘﻮﻗﻊ ﯾﺎ ﺑﺎﻟﻔﻌﻞ ﻭﺍﻗﻊ ﺷﺮ ﻣﺜﻼً،
ﻣﺮﺽ، ﻧﻈﺮﺑﺪ، ﺑﺨﺎﺭ ، ﺟﺎﺩﻭ، ﭨﻮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﭨﻮﭨﮑﮯ ﯾﺎ ﺩﯾﮕﺮ
ﺁﻓﺎﺕ ﻭﻣﺼﺎﺋﺐ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺳﮯ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻟﭩﮑﺎﯾﺎ
ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ، ﺟﺴﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﺣﺮﺍﻡ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎﮨﮯ۔ ‏( ﻓﺘﺢ
ﺍﻟﺒﺎﺭﯼ، 10/166 ، ﻭﺍﻟﻨﮭﺎﯾﺔ، 1/19 ۔
ﺍﮨﻞ ﻋﻠﻢ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ
ﮨﺮ ﻭﮦ ﺷﮯ ﺟﺴﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺘﻮﻗﻊ ﯾﺎ ﺑﺎﻟﻔﻌﻞ ﻭﺍﻗﻊ ﺷﺮ ﮐﮯ
ﺩﻓﻊ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ، ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺷﺮ
ﮐﮯ ﺩﻓﻊ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﻣﻮٴﺛﺮ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﺗﻤﯿﻤﺔ
ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﮯ ، ﺧﻮﺍﮦ ﻭﮦ ﺩﮬﺎﮔﮯ، ﮐﺎﻏﺬﺍﺕ،
ﻟﮑﮍﯼ ﮐﯽ ﮐﮭﭙﭽﯿﺎﮞ، ﻣﻌﺎﺩﻥ ‏( ﺳﻮﻧﮯ ، ﭼﺎﻧﺪﯼ، ﺗﺎﻧﺒﮯ،
ﭘﯿﺘﻞ، ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮨﮯ ﻭﻏﯿﺮﮦ ‏) ﯾﺎ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﮯ ﻧﻌﻞ ﯾﺎ ﺍﺱ
ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﭼﯿﺰ ﮨﻮ۔
ﺗﻤﯿﻤﮧ ‏( ﺗﻌﻮﯾﺬ ‏)ﮐﺎ ﺣﮑﻢ : ﺗﻌﻮﯾﺬ ﮐﯽ ﺩﻭ ﻗﺴﻤﯿﮟ ﮨﯿﮟ:
۱- ﻭﮦ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﺟﻮ ﻗﺮﺁ ﻧﯽ ﺁﯾﺎﺕ، ﺍﺩﻋﯿﮧٴ ﻣﺎﺛﻮﺭﮦ ﮐﮯ
ﻋﻼﻭﮦ ﺳﮯ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﺟﺎﺋﮯ۔
۲ - ﻭﮦ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﺟﻮ ﻗﺮﺁ ﻧﯽ ﺁﯾﺎﺕ، ﺍﺳﻤﺎﺀ ﻭﺻﻔﺎﺕ ﺍﻟٰﮩﯽ
ﺍﻭﺭﺍﺩﻋﯿﮧٴ ﻣﺎﺛﻮﺭﮦ ﺳﮯ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﺟﺎﺋﮯ۔
ﭘﮩﻠﯽ ﻗﺴﻢ: ﻏﯿﺮﻗﺮﺁﻥ ﺳﮯ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ
ﺍﯾﺴﯽ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﻟﭩﮑﺎﻧﺎ ﺑﺎﻻﺗﻔﺎﻕ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ،ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻠﯿﮟ
ﮐﺘﺎﺏ ﻭﺳﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮑﺜﺮﺕ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ :
۱- ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﻣﯿﮟ ﺷﻞ ﮐﺎ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﮯ : ﴿ﻭﺍﻥ ﯾﻤﺴﺴﮏ
ﺍﻟﻠﮧ ﺑﻀﺮٍ ﻓﻼ ﮐﺎﺷﻒ ﻟﮧ ﺍﻻ ﮬﻮ، ﻭﺍﻥ ﯾﻤﺴﺴﮏ ﺑﺨﯿﺮ
ﻓﮭﻮ ﻋﻠﯽ ﮐﻞ ﺷﯽ ﺀ ﻗﺪﯾﺮ﴾۔ ” ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮﺷﺘﻤﮭﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ
ﺗﮑﻠﯿﻒ ﭘﮩﻨﭽﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻭﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻﺵ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ
ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺷﺪ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻔﻊ
ﭘﮩﻨﭽﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﻗﺪﺭﺕ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ
“ ‏( ﺍﻷﻧﻌﺎﻡ 17: ‏)
۲ - ﻧﯿﺰ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﮯ: ﴿ﻭﺍﻥ ﯾﻤﺴﺴﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﻀﺮٍ ﻓﻼ ﮐﺎﺷﻒ
ﻟﮧ ﺍﻻ ﮬﻮ،ﻭﺍﻥ ﯾﺮﺩﮎ ﺑﺨﯿﺮٍ ﻓﻼ ﺭﺍﺩّ ﻟﻔﻀﻠﮧ ﯾﺼﯿﺐ ﺑﮧ
ﻣﻦ ﯾﺸﺎﺀ ﻣﻦ ﻋﺒﺎﺩﮦ ﻭﮬﻮ ﺍﻟﻐﻔﻮﺭ ﺍﻟﺮﺣﯿﻢ﴾۔ ” ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ
ﺵ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﭘﮩﻨﭽﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻭﺭ ﮐﺮﻧﮯ
ﻭﺍﻻﺵ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮﻭﮦ ﺗﻤﮭﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﺧﯿﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻓﻀﻞ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﻨﮯ
ﻭﺍﻻﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﻓﻀﻞ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ
ﺟﺲ ﭘﺮ ﭼﺎﮨﮯ ﻧﭽﮭﺎﻭﺭ ﮐﺮﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮍﺍ ﺑﺨﺸﻨﮯ ﻭﺍﻻ
ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﮯ “ ‏( ﯾﻮﻧﺲ 107: ‏) ۔
ﺍﻥ ﺁﯾﺎ ﺕ ﮐﺮﯾﻤﮧ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻭﺍﺿﺢ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﻌﻠﻮﻡ
ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺷﺮ ﺍﻭﺭ ﻣﺼﺎﺋﺐ ﻭ ﺑﻠﯿﺎﺕ ﮐﺎ
ﺩﻭﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺻﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﺷﻞ ﮨﯽ ﮨﮯ ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﻥ
ﺗﻌﻮﯾﺬﻭﮞ ﮐﺎ ﻟﭩﮑﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﺼﺎﺋﺐ ﻭﺑﻠﯿﺎﺕ ﮐﮯ
ﺩﻭﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻮٴﺛﺮ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎﺷﻞ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﮐﯽ ﺳﺮﺍﺳﺮ
ﺧﻼﻑ ﻭﺭﺯﯼ ﮨﮯ ۔
ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ ﻣﯿﮟ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﮉﮮ ﮐﯽ ﺣﺮﻣﺖ
ﮐﯽ ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺩﻟﯿﻠﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ، ﺑﻐﺮ ﺽ ﺍﺧﺘﺼﺎﺭ
ﭼﻨﺪ ﮐﮯ ﺫﮐﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﮐﺘﻔﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ:
۱- ﻋﻦ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﺑﻦ ﺍﻟﺤﺼﯿﻦ ﺃﻥ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﷺ ﺭﺃﯼ ﺭﺟﻼً ﻓﻲ
ﯾﺪﮦ ﺣﻠﻘﺔ ﻣﻦ ﺻﻔﺮ ﻓﻘﺎﻝ ﻣﺎ ﮬﺬﮦ ؟ ﻗﺎﻝ : ﻣﻦ ﺍﻟﻮﺍﮬﻨﺔ
، ﻗﺎﻝ ﺍﻧﺰﻋﮭﺎ ﻓﺎﻧﮭﺎ ﻻ ﺗﺰﯾﺪﮎ ﺍﻻ ﻭﮬﻨﺎً ﻓﺎﻧﮏ ﻟﻮ ﻣﺖ
ﻭﮬﻴﻌﻠﯿﮏ ﻣﺎ ﺃﻓﻠﺤﺖ ﺃﺑﺪﺍً“ ‏( ﺍﺣﻤﺪ، 4/445 ، ﻭﺍﻟﺤﺎﮐﻢ،
4/216 ، ﻭﺻﺤﺤﮧ ﻭﻭﺍﻓﻘﮧ ﺍﻟﺬﮬﺒﯽ ‏) ۔ ” ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﺍﻥ
ﺑﻦ ﺣﺼﯿﻦ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮩﺸﮑﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ
ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺘﻞ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮐﮍﺍ
ﺗﮭﺎ ، ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: ﻭﺍﮬﻨﮧ
‏(ﺍﯾﮏ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﺟﺲ ﺳﮯ ﮐﻨﺪﮬﮯ ﯾﺎ ﺑﺎﺯﻭ ﮐﯽ ﺭﮔﯿﮟ ﭘﮭﻮﻝ
ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ‏) ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ، ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺍﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﮮ
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﯽ ﮨﻮﮔﺎ،
ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮﺍﺳﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﻮﺕ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ
ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ “ ۔
۲ - ﻗﺎﻝ ﺍﻟﻨﺒﻲﷺ ”: ﻣﻦ ﺗﻌﻠﻖ ﺗﻤﯿﻤﺔ ﻓﻼ ﺃﺗﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﻟﮧ، ﻭﻣﻦ
ﺗﻌﻠﻖ ﻭﺩﻋﺔ ﻓﻼ ﻭﺩﻉ ﺍﻟﻠﮧ ﻟﮧ “ ‏( ﻣﺴﻨﺪ ﺍﺣﻤﺪ: 4/154 ۔
ﻭﺍﻟﺤﺎﮐﻢ : 4/216 ﻭﺻﺤﺤﮧ ﻭﻭﺍﻓﻘﮧ ﺍﻟﺬﮬﺒﯽ ‏) ۔ ”ﺟﺲ ﻧﮯ
ﺗﻌﻮﯾﺬ ﻟﭩﮑﺎﯾﺎ ﺵ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺮﺍﺩ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ، ﺍﻭﺭ
ﺟﺲ ﻧﮯ ﺳﯿﭗ ﻟﭩﮑﺎﺋﯽ ﺵ ﺍﺳﮯ ﺁﺭﺍﻡ ﻧﮧ ﺩﮮ“ ۔
۳ - ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻘﺒﮧ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﺟﮩﻨﯿﺼﺴﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﺭﺳﻮﻝ ﺵ ﷺ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺩﺱ ﺁﺩﻣﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻭﻓﺪ ﺁﯾﺎ،
ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﻮ ‏( ۹ ‏) ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺳﮯ ﺑﯿﻌﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ
ﺍﯾﮏ ﺳﮯ ﻧﮧ ﮐﯽ، ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ
ﺭﺳﻮﻝ ﷺ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻧﻮ ﺳﮯ ﺑﯿﻌﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ
ﺩﯾﺎ ؟ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﻌﻮﯾﺬ
ﻟﭩﮑﺎ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺗﻌﻮﯾﺬ
ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯼ ، ﭘﮭﺮﺁﭖ ﷺ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﯿﻌﺖ ﮐﯽ
ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ”: ﺟﺲ ﻧﮯ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﻟﭩﮑﺎﺋﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺷﺮﮎ
ﮐﯿﺎ “ ۔ ‏( ﺍﺣﻤﺪ : 4/156۔ ﻭﺍﻟﺼﺤﯿﺤﮧ ﻟﻸﻟﺒﺎﻧﯽ، ﺭﻗﻢ 492/ ‏)
۴ - ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺬﯾﻔﮧ ﺭﺽ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﯾﺾ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ
ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﮬﺎﮔﺎ ﺑﻨﺪﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ،
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: ﴿
ﻭﻣﺎ ﯾﻮٴﻣﻦ ﺃﮐﺜﺮﮬﻢ ﺑﺎﻟﻠﮧ ﺍﻻ ﻭﮬﻢ ﻣﺸﺮﮐﻮﻥ﴾، ” ﺍﻭﺭ ﺍﻥ
ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﻟﻮﮔﺶ ﻝ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻ ﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ
ﺑﮭﯽ ﻣﺸﺮﮎ ﮨﯿﮟ“ ‏( ﯾﻮﺳﻒ 106: ‏) ۔
۵ - ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺽ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﮐﻮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﻨﺎ ”: ﺍﻥ ﺍﻟﺮﻗﯽٰ
ﻭﺍﻟﺘﻤﺎﺋﻢ ﻭﺍﻟﺘﻮﻟﺔ ﺷﺮﮎ“ ۔ ” ﺟﮭﺎﮌ ﭘﮭﻮﻧﮏ، ‏( ﻧﻈﺮ ﺑﺪ ﯾﺎ
ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺮﺽ ﺳﮯ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ‏) ﺗﻌﻮﯾﺬ ، ﮔﻨﮉﮮ
ﻟﭩﮑﺎﻧﺎ، ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺎﮞ ﺑﯿﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ
ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻋﻤﻞ ﺷﺮﮎ ﮨﯿﮟ“ ‏(ﺻﺤﯿﺢ ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ
ﻟﻸﻟﺒﺎﻧﯽ: 2/269 ۔ ﻭﻣﺴﻨﺪ ﺍﺣﻤﺪ، 1/381 ‏) ۔
ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺳﮯ ﻗﻄﻌﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ
ﺛﺒﻮﺕ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻌﻮﯾﺬ ، ﮔﻨﮉﮮ، ﭼﮭﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮍﮮ
ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻏﺮﺽ ﺳﮯ ﻟﭩﮑﺎﻧﺎ ﺷﺮ ﮎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ
ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ۔
ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻗﺴﻢ: ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ، ﺍﺳﻤﺎﺀ ﻭﺻﻔﺎﺕ ﺍﻟٰﮩﯽ ﺍﻭﺭ
ﺍﺩﻋﯿﮧ ﻣﺎﺛﻮﺭﮦ ﺳﮯ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﻟﭩﮑﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ :
ﺗﻌﻮﯾﺬ ﮐﯽ ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻠﻒ ﺻﺎﻟﺤﯿﻦ،
ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ، ﺗﺎﺑﻌﯿﻦ ﻋﻈﺎﻡ، ﻭﻏﯿﺮﮨﻢ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺭﺍﺋﯿﮟ
ﮨﯿﮟ :
۱- ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻧﺒﻮﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺛﺎﺑﺖ ﺩﻋﺎﻭٴﮞ
ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﻟﭩﮑﺎﻧﺎ ﺣﺮﺍﻡ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﻣﯿﮟ
ﺷﺎﻣﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺑﻠﮑﮧ ﻭﮦ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺭﺍﺋﮯ ﺳﻌﯿﺪ ﺑﻦ
ﺍﻟﻤﺴﯿﺐ ،ﻋﻄﺎﺀ، ﺍﺑﻮ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﺎﻗﺮ، ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺎﻟﮏ،ﺍﻣﺎﻡ
ﻗﺮﻃﺒﯽ، ﻋﻼﻣﮧ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺒﺮﺭﺣﻤﮩﻢ ﺵ ﻭﻏﯿﺮﮨﻢ ﮐﯽ
ﮨﮯ۔
۲ - ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﺩﻋﯿﮧٴ ﻣﺎﺛﻮﺭﮦ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﻌﻮﯾﺬ
ﻟﭩﮑﺎﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ، ﯾﮧ ﺭﺍﺋﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ، ﺍﺑﻦ
ﻣﺴﻌﻮﺩ، ﺣﺬﯾﻔﮧ، ﻋﻘﺒﮧ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ، ﺍﺑﻦ ﻋﮑﯿﻤﺚ، ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ
ﻧﺨﻌﯽ، ﺍﺑﻦ ﺍﻟﻌﺮﺑﯽ ، ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻮﮨﺎﺏ
ﻧﺠﺪﯼ ، ﺷﯿﺦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻟﺴﻌﺪﯼ ،ﺣﺎﻓﻆ ﺣﮑﻤﯽ،
ﺷﯿﺦ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﺎﻣﺪ ﺍﻟﻔﻘﯽ، ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺎﺻﺮﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ
ﻣﺤﺪﺙ ﻋﺼﺮ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻟﺒﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻔﺘﯽ ﻋﺼﺮ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﺑﻦ
ﺑﺎﺯﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﮯ۔
ﭘﮩﻠﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻠﯿﮟ ﺣﺴﺐ ﺫﯾﻞ ﮨﯿﮟ:
۱- ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺑﺎﺭﯼ :﴿ﻭﻧﻨﺰﻝ ﻣﻦ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ﻣﺎ ﮬﻮ ﺷﻔﺎﺀ
ﻭﺭﺣﻤﺔ ﻟﻠﻤﻮٴﻣﻨﯿﻦ﴾۔ ” ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ
ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺍﺗﺎﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﻮﻣﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺷﻔﺎﺍﻭﺭ
ﺭﺣﻤﺖ ﮨﯿﮟ “ ‏( ﺍﻻﺳﺮﺍﺀ 82: ‏)۔ ‏( ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﮐﺮﯾﻤﮧ ﻣﯿﮟ
ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﻮ ﺷﻔﺎﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ‏)
۲ - ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﮞ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺭﺿﯽ ﺵ ﻋﻨﮩﺎﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ :
” ‏( ﺗﻤﯿﻤﮧ ‏) ﺗﻌﻮﯾﺬ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺼﯿﺒﺖ
ﮐﮯ ﻻﺣﻖ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻟﭩﮑﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ، ﻧﮧ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ
ﺑﻌﺪ“ ‏( ﺍﻟﺒﯿﮩﻘﯽ: 9/351 ‏)۔
۳ - ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻭ ﺹ ﮐﺎ ﻋﻤﻞ : ﺁﭖ ﺳﮯ
ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﺑﺎﻟﻎ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ
ﮔﮭﺒﺮﺍﮨﭧ ﮐﯽ ﺩﺭﺝ ﺫﯾﻞ ﺩﻋﺎ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﻟﭩﮑﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ :
” ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﺃﻋﻮﺫ ﺑﮑﻠﻤﺎﺗﺎﻟﻠﮧ ﺍﻟﺘﺎﻣﺎﺕ “… ‏( ﺍﺣﻤﺪ: 2/181۔
ﻭﺍﻟﺘﺮﻣﺬﯼ 3528: ﻭﺣﺴﻨﮧ ‏) ۔
ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺭﺍﺋﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺩﻻﺋﻞ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ
ﺩﯾﺌﮯ ﮨﯿﮟ:
۱- ﻣﺬﮐﻮﺭﮦ ﺁﯾﺖ ﮐﺮﯾﻤﮧ ﻣﺠﻤﻞ ﮨﮯ، ﺟﺲ ﮐﯽ ﺗﻔﺼﯿﻞ
ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺭﺳﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﻋﯽ ﺟﮭﺎﮌ ﭘﮭﻮﻧﮏ ،ﺍﻭﺭﻗﺮﺁﻥ
ﭘﮍﮪ ﮐﺮﻣﺮﯾﺾ ﭘﺮ ﺩﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩﮨﮯ،
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﺫﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ
ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺛﺴﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺛﺒﻮﺕ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ۔
۲ - ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﮞ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺍﺛﺮ
ﻣﺠﻤﻞ ﮨﮯ ، ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﻮ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ
ﻟﭩﮑﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺗﻤﯿﻤﮧ
‏( ﺗﻌﻮﯾﺬ ‏) ﮐﯽ ﻣﺎﮨﯿﺖ ﮐﺎ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﮯ۔
۳ - ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭﺹ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﺎ
ﺗﻌﻠﻖ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺻﺤﯿﺢ ﻧﮩﯿﮟ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ
ﺍﺳﺤﺎﻕ ﻧﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻣﺪﻟﺲ ﮨﯿﮟ ، ﻟﻔﻆ ” ﻋﻦ“ ﺳﮯ
ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ، ‏(ﺻﺤﯿﺢ ﺳﻨﻦ ﺃﺑﻮ ﺩﺍﻭﺩ ﻟﻸﻟﺒﺎﻧﯽ:
2/737۔ ﻭﺍﻟﺴﻠﺴﻠﺔ ﺍﻟﺼﺤﯿﺤﺔ : 1/585 ‏) ۔
ﻧﯿﺰ ﺷﯿﺦ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﺎﻣﺪ ﺍﻟﻔﻘﯽ ﺍﺱ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﭘﺮ ﺗﻌﻠﯿﻘﺎً
ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ: ” ﯾﮧ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺿﻌﯿﻒ ﮨﮯ، ﻣﺰﯾﺪ ﺑﺮ ﺁﻧﮑﮧ
ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺪﻋﺎ ﺛﺎﺑﺖ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺭﻭﺍﯾﺖ
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻣﺬﮐﻮﺭﮦ ﺩﻋﺎ ﺑﮍﮮ
ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺍﺗﮯ ﺗﮭﮯ ، ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﻠﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻏﺮﺽ ﺳﮯ ﺗﺨﺘﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﻟﭩﮑﺎ ﺩﯾﺘﮯ
ﺗﮭﮯ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪﯾﺎﺩ ﮐﺮﺍﻧﺎ ﺗﮭﺎﻧﮧ ﮐﮧ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﺑﻨﺎﻧﺎ
، ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﮐﺎﻏﺬﻭﮞ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﯽ
ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﮧ ﺗﺨﺘﯿﻮﮞ ﭘﺮ “ ‏( ﻓﺘﺢ ﺍﻟﻤﺠﯿﺪ 142: ‏)۔
ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺭﺍﺋﮯ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻠﯿﮟ ﺣﺴﺐ ﺫﯾﻞ ﮨﯿﮟ:
۱- ﺗﻌﻮﯾﺬ ﮐﯽ ﺣﺮﻣﺖ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻠﯿﮟ ﻋﺎﻡ ﮨﯿﮟ، ‏( ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ
ﺳﺎﺑﻘﮧ ﺳﻄﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭﺍ ‏) ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺗﻌﻮﯾﺬﻭﮞ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺯ ﮐﯽ
ﺗﺨﺼﯿﺺ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﻮ۔
۲ - ﺍﮔﺮ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺗﻌﻮﯾﺬﯾﮟ ﻟﭩﮑﺎﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ
ﷺ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺿﺮﻭﺭ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ، ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺁﯾﺎﺕ
ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺳﮯ ﺟﮭﺎﮌ ﭘﮭﻮﻧﮏ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺯ ﮐﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ
ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮨﮯ، ﺑﺸﺮﻃﯿﮑﮧ ﺷﺮﮐﯿﺎﺕ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ،
ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻧﺒﻮﯼ ﷺ ﮨﮯ ”:ﺍﻋﺮﺿﻮﺍ ﻋﻠﻲ ﺭﻗﺎﮐﻢ، ﻻ ﺑﺄﺱ
ﺑﺎﻟﺮﻗﯽٰ ﻣﺎﻟﻢ ﺗﮑﻦ ﺷﺮﮐﺎ“ ، ” ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﻗﯿﮯ ‏( ﺩﻡ ﮐﮯ
ﺍﻟﻔﺎﻅ ‏) ﭘﯿﺶ ﮐﺮﻭ، ﺍﯾﺴﮯ ﺭﻗﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﺝ
ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮ ﺷﺮﮐﯿﺎﺕ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ“ ‏(ﻣﺴﻠﻢ ‏) ۔
۳ - ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺛﮑﮯ ﺍﻗﻮﺍﻝ ﺗﻌﻮﯾﺬﻭﮞ ﮐﯽ ﺣﺮﻣﺖ ﮐﮯ
ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﻘﻮﻝ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺟﻦ ﺑﻌﺾ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﺳﮯ
ﺟﻮﺍﺯ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻣﻨﻘﻮﻝ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺭﻭﺍﯾﺘﯿﮟ ﺻﺤﯿﺢ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﮐﯽ ﺳﻨﺖ ﮐﻮ ﻏﯿﺮﻭﮞ
ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮭﮯ، ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺗﺎﺑﻌﯿﻦ ﮐﮯ
ﺍﻗﻮﺍﻝ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﮨﯿﮟ، ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﻧﺨﻌﯽ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ
ﺛﮑﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ”:ﮐﺎﻧﻮﺍ ﯾﮑﺮﮨﻮﻥ ﺍﻟﺘﻤﺎﺋﻢ
ﮐﻠﮩﺎ ﻣﻦ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ﻭﻏﯿﺮ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ“ ، ”ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺍﻭﺭ
ﻏﯿﺮﻗﺮﺁﻧﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺗﻌﻮﯾﺬﻭﮞ ﮐﻮ ﻧﺎﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺗﮯ
ﺗﮭﮯ“ ‏( ﻣﺼﻨﻒ ﺍﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﺷﯿﺒﮧ: 7/374 ‏)۔
۴ - ﺷﺮﯾﻌﺖ ﺍﺳﻼﻣﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﺫﺭﺍﺋﻊ ﮐﺎ ﺳﺪ ﺑﺎﺏ ﺿﺮﻭﺭﯼ
ﮨﮯ، ﺗﺎﮐﮧ ﺷﺮﮐﯿﮧ ﺗﻌﻮﯾﺬﯾﮟ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺗﻌﻮﯾﺬﻭﮞ ﺳﮯ ﮔﮉﻣﮉ
ﻧﮧ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ۔
۵ - ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺗﻌﻮﯾﺬﻭﮞ ﮐﺎ ﻟﭩﮑﺎﻧﺎ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺑﮯ ﺍﺩﺑﯽ ﺍﻭﺭ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﺮﻣﺖ ﮐﯽ ﭘﺎﻣﺎﻟﯽ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﮨﮯ ، ﻣﺜﻼً ﺍﺳﮯ
ﻟﭩﮑﺎﮐﺮ ﻟﯿﭩﺮﻥ ، ﺑﺎﺗﮫ ﺭﻭﻡ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﻏﯿﺮ ﻣﻨﺎﺳﺐ
ﺟﮕﮩﻮﮞ ﭘﺮ ﺟﺎﻧﺎ، ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻤﺒﺴﺘﺮﯼ، ﺣﺎﻟﺖ ﺍﺣﺘﻼﻡ
ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺾ ﻭﻧﻔﺎﺱ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﻟﭩﮑﺎﻧﺎ ﻭﻏﯿﺮﮦ
ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺑﮯ ﺍﺩﺑﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ۔
۶ - ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺗﻌﻮﯾﺬﻭﮞ ﮐﮯ ﺟﺎﺋﺰ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ‏( ﺟﺒﮑﮧ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺯ ﻭﻋﺪﻡ ﺟﻮﺍﺯ ﻣﺸﮑﻮﮎ ﮨﮯ ‏) ﻗﺮﺁﻥ ﮐﮯ
ﺷﺮﻋﯽ ﻋﻼﺝ ‏( ﺩﻡ ﻭﻏﯿﺮﮦ ‏) ﮐﻮﺟﻮ ﮐﮧ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ﻣﻌﻄﻞ
ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﻨﺎ ﻻﺯﻡ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺳﻠﻒ ﺻﺎﻟﺤﯿﻦ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺗﺎﺑﻌﯿﻦ ، ﺍﺋﻤﮧ ﻭ
ﻣﺤﺪﺛﯿﻦ ﮐﺮﺍﻡ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﺍﮨﻞ ﻋﻠﻢ ﮐﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ
ﯾﮩﯽ ﺑﺎﺕ ﺭﺍﺟﺢ ﺍﻭﺭ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻌﻮﯾﺬ ﺧﻮﺍﮦ
ﻗﺮﺁﻧﯽ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻏﯿﺮ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻟﭩﮑﺎﻧﺎ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ
ﮐﮧ ﮨﺮ ﺩﻭ ﻓﺮﯾﻖ ﮐﮯ ﺩﻻﺋﻞ ﮐﺎ ﻋﻠﻤﯽ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﯾﮧ
ﺑﺎﺕ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔
ﺗﻌﻮﯾﺬ ﻣﺎﺿﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﺎﻝ ﮐﮯ ﺁﺋﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ:
ﻋﮩﺪ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﺗﻌﻮﯾﺬ ﻟﭩﮑﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮﺵ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﻃﻠﺒﯽ ﮐﻔﺎﺭ
ﻭﻣﺸﺮﮐﯿﻦ ﮐﺎ ﺷﯿﻮﮦ ﻭﺷﻌﺎﺭ ﺗﮭﺎ، ﺍﺭﺷﺎﺩ ﺑﺎﺭﯼ ﮨﮯ
: ﴿ﻭﺃﻧﮧ ﮐﺎﻥ ﺭﺟﺎﻝ ﻣﻦ ﺍﻻﻧﺲ ﯾﻌﻮﺫﻭﻥ ﺑﺮﺟﺎﻝ ﻣﻦ
ﺍﻟﺠﻦ ﻓﺰﺍﺩﻭﮨﻢ ﺭﮬﻘﺎً﴾ ،
” ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮒ ﺟﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ
ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﻨﺎﮦ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ، ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﻥ
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﺮ ﮐﺸﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ “ ‏(ﺍﻟﺠﻦ 6: ‏)۔
ﻏﺮﺽ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻧﺎﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﮐﺜﺮﺕ ﺳﮯ
ﺗﻌﻮﯾﺬﻭﮞ ﮐﺎ ﺭﻭﺍﺝ ﺗﮭﺎ، ﺟﻨﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﭽﻮﮞ ﭘﺮ ﺟﻦ
ﺷﯿﺎﻃﯿﻦ، ﻧﻈﺮ ﺑﺪ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺳﮯ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ، ﻣﯿﺎﮞ
ﺑﯿﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ، ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻭﻧﭩﻮﮞ،
ﮔﮭﻮﮌﻭﮞ، ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﺑﺪﻭﻏﯿﺮﮦ ﺳﮯ
ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻟﭩﮑﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ، ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﯿﻨﮯ ﺳﮯ
ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﯽ ﻣﻘﺎﺻﺪ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ
ﺳﺎﺭﮮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﺎﮌﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﯾﺎ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺟﻮﺗﮯ
ﯾﺎ ﭼﭙﻞ، ﺁﺋﯿﻨﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﻌﺾ ﺩﮬﺎﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﮉﮮ ﻟﭩﮑﺎﺗﮯ
ﮨﯿﮟ، ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﻌﺾ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ
ﺩﻭﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﻭﮞ ﭘﺮ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﮯ ﻧﻌﻞ ﻭﻏﯿﺮﮦ
ﻟﭩﮑﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﯾﺎ ﻣﮑﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﺎﻟﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﻟﮩﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ،ﻏﻮﺭ
ﮐﺮﯾﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ
ﺍﻭﺭﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ
ﮨﮯ؟
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮒ ﺑﺎﻟﺨﺼﻮﺹ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﻧﻈﺮ ﺑﺪ
ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﻭٴ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﮑﯿﮯ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ
ﭼﮭﺮﯼ ،ﻟﻮﮨﺎ، ﮨﺮﻥ ﮐﯽ ﮐﮭﺎﻝ ، ﺧﺮﮔﻮﺵ ﮐﯽ ﮐﮭﺎﻝ، ﺍﻭﺭ
ﺗﻌﻮﯾﺬﯾﮟ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﻟﭩﮑﺎﺗﯽ
ﮨﯿﮟ، ﯾﮧ ﺳﺎﺭﯼ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﮐﯽ ﮨﯿﮟ، ﺟﻦ
ﺳﮯ ﺍﺟﺘﻨﺎﺏ ﮐﺮﻧﺎ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ، ﺍﻟﻠﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﺗﻮﻓﯿﻖ
ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ‏(ﺁﻣﯿﻦ ‏) ۔